عقل العقل ۔ الحیاة
غیر ملکیوں سے شادی شدہ سعودی خواتین کی اولاد کو سعودی شہریت دینے کے جائز مطالبے طویل عرصے سے کئے جارہے ہیں۔ اس مطالبے کو نمٹانے کا معاملہ کافی طول پکڑ گیا۔
وزارت انصاف نے 2013کے دوران ایک رپورٹ جاری کرکے توجہ دلائی تھی کہ غیر ملکیوں سے شادیاں کرنیوالی سعودی خواتین کی تعداد 7لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 10فیصد سعودی خواتین غیر ملکیوں کے نکاح میں ہیں۔
ہمارے سامنے یہ انتہائی اہم مسئلہ ہے ، اسے تیزی سے حل کرنا ہوگا۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ ان دنوں اس انسانی اور قومی مسئلے کے حل کیلئے مجلس شوریٰ میں سرگرمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ بعض ارکان شوریٰ نے حال ہی میں سعودی شہریت کے قانون میں ترمیم کیلئے ایک مسودہ پیش کیاہے ۔اس کے بموجب غیر ملکیوں سے شادی شدہ سعودی خواتین کی اولاد کو سعودی شہریت دینے کا حق تجویز کیا گیاہے البتہ شرائط ایسی عائد کردی گئی ہیں جنہیں پورا کیا جانا ممکن نہیں۔
ہم ایسے معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جس کی بابت فرض کیا جاتا ہے کہ اسے انسانی ، قومی اور اسلامی اقدار بلکہ ہر قابل قبول معیار کے مطابق مرد وخواتین کے حقوق و فرائض میں مساوات کا اصول نافذ کیا جانا چاہئے۔ ہمارے یہاں مرداور عورت کے خلاف امتیاز اور نسلی تفریق نہیں ہونی چاہئے۔ ہمیں ان دونوں کے حقوق سے متعلق غیر مساویانہ سلوک نہیں کرنا چاہئے۔ ہم ایسے دور میں زندگی گزار رہے ہیں جس میں سعودی خواتین زندگی کے مختلف میدانوں میں بڑھ چڑھ کر کام کررہی ہیں۔ وہ اپنی صلاحیتوں اور اپنے آپ کو منوارہی ہیں۔ ایسے عالم میں خواتین کے حقوق محفوظ ہونے چاہئیں۔ سعودی خواتین کی اولاد کو سعودی شہریت ترجیحی بنیادوں پر دینا چاہئے۔یہ موجودہ مرحلے کی بنیادی پہچان بننی چاہئے۔ سعودی خواتین کی غیر ملکی اولاد کو سعودی شہریت کے حق سے محروم کرنے کے منفی نتائج سعودی معاشرے پر منعکس ہونگے۔ غیر ملکیوں سے سعودی خواتین کی بیشتر شادیاں سرکاری اداروں کی منظوری سے ہوئیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک اور خود عرب ممالک ملکی خواتین کی اولاد کو بچے کی پیدائش ہی پر شہریت دیدیتے ہیں۔اتنا ہی نہیں، کئی ممالک تو ہر اس بچے کو حق شہریت دیتے ہیں جو ان کے یہاں پیدا ہوتا ہے۔
سعودی حکومت نے اس قسم کے حالات کے کرب سے خاندانوں کو بچانے کیلئے متعدد سہولتیں فراہم کی ہیں ۔ مثال کے طور پر سعودی خواتین کی غیر ملکی اولاد کو تعلیم اور روزگار کا حق دیاہے۔ بعض ملازمتوں میں سعودائزیشن کی شرح میں سعودی ماﺅں کی غیر ملکی اولا د کو سعودیوں جیسا درجہ دیا ہے۔
یہ بھی درست ہے کہ ہر معاشرے میں جائز مطالبات کا سلسلہ وقت کے تقاضوں کے مطابق آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہ پختگی اور پیشرفت کی علامت ہے۔ ان دنوں مجلس شوریٰ کے ایوانوں میں سعودی ماﺅں کی غیر ملکی اولاد کو سعودی شہریت دینے کے جائز مطالبات کے حوالے سے جو کچھ ہورہا ہے وہ اس بات کی علامت ہے کہ ہمارے معاشرے میں سعودی خواتین کے ساتھ انصاف کا شعور بڑھ رہا ہے۔ سعودی معاشرہ ہموطن خواتین کو مکمل حقوق دینے کے سلسلے میں آگہی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ یہ بات ہمارے ملک کے بنیادی قانون سے بھی مطابقت رکھتی ہے جو اسلامی اور انسانی تصورات پر قائم ہے جس نے حقوق و فرائض میں مساوات کا علم بلند کررکھا ہے جو فرضی بنیادوں پر امتیاز اور نسلی تفریق کا مخالف ہے جو والدین میں سے کسی ایک کی شہریت کی بنیاد پر امتیاز کا مخالف ہے۔
سعودی ماﺅں کی غیر ملکی اولاد کو سعودی شہریت کی مخالفت کرنیوالے ایسے دلائل پیش کررہے ہیں جو افسوسناک ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں اس قسم کی باتیں پڑھ کر افسوس ہی ہوتا ہے۔ مخالفت کرنیوالوں کے دلائل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عورت اور اسکے حقوق کے حوالے سے غیر معیاری سوچ رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ ایسے افراد کو سعودی شہریت دینے سے جن کا کوئی وطن نہ ہو اور جن کی کوئی شناخت نہ ہو وہ سعودیوں پربوجھ بن جائیں گے، روزگار کے سلسلے میں سعودیوں کو پیچھے دھکیلیں گے، بےروزگاری میں اضافہ کرینگے۔ میرا کہنا ہے کہ یہ لوگ ہمارا ہی حصہ ہیں۔ یہ اجنبی نہیں کہ ہم ان کی بابت اس قسم کی تنگ نظری کا مظاہرہ کریں۔ ہم لوگ جذباتی دلائل کے آگے ڈھیر ہوجاتے ہیں۔ آخر جذباتی لوگ صحیح جہت میں یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ایک ماں جو زندگی کا سرچشمہ ہوتی ہے، اسے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو سعودی شہریت دینے سے کیونکر محروم رکھا جاسکتا ہے؟۔
٭٭٭٭٭٭٭٭