عبدالرحمان الراشد ۔ الشرق الاوسط
عراق نے متعدد ممالک سے تعمیر نو کی مد میں 30ارب ڈالر کے وعدے جمع کرلئے۔ حقیقت یہ ہے کہ متعدداسباب کے پیش نظر عراق کی تعمیر نو کیلئے بیشتر ممالک پُر جوش نہیں ۔ ایک سبب تو یہ ہے کہ خطے کے تمام ممالک مشکل اقتصادی حالات سے گزر رہے ہیں۔ جنگ کے کمر توڑ دینے والے بل بھی اس صورتحال کے ذمے دار ہیں۔
دولت کی کمی سے کہیں زیادہ اہم سبب خود عراقی انتظامیہ کی بدنظمی ہے۔ بھلا بتائیے کہ ایسا ملک جہاں ملیشیاﺅں کا راج ہو اور جسے بدعنوانی گھُن کی طرح کھا رہی ہو، حکومت ڈھیلی ڈھالی ہو، فرقہ واریت کھلم کھلا ہورہی ہو، دہشتگرد ی پر قابو نہ ہو، غیر ملکی خصوصاً ایران کی اعلانیہ مداخلت روز افزوں ہو، ایسے عالم میں کون ملک ہوگا جو عراق میں سرمایہ لگانے میں دلچسپی لے گا۔ یہ سارے چیلنج بڑے خطرناک ہیں ،انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکہ اور اقوام متحدہ عراق کی تعمیر نو میں حصہ لینے کیلئے دباﺅ پر دباﺅ ڈالے چلے جارہے ہیں۔
عراق کا مسئلہ مالی وسائل کی کمی کا نہیں بلکہ مذکورہ مصائب کی بھر مار کا ہے۔ عراق اب تک مذکورہ مصائب کے بھنور میں پھنسا ہوا ہے۔ عراق بذات خود مالدار ریاست ہے۔ محفوظ تیل ذخائر کے حوالے سے عراق کا نمبر پوری دنیا میں پانچواں ہے۔ عراق گیس ذخائر سے بھی مالا مال ہے۔ عراق دجلہ اور فرات جیسے دریاﺅں والا ملک ہے۔ اگر عراق میں امن و استحکام قائم ہوجائے۔ عراقی حکومت ریاست کے تمام اداروں پر حاوی ہوجائے ، ایسے عالم میں کوئی بھی عراق کی تعمیر نو کیلئے قرضے ، عطیات اور سرمایہ جات کی فراہمی میں ادنیٰ پس و پیش سے کام نہیں لے گا۔
عراق میں ہونیوالی کانفرنسوں اور بین الاقوامی وعدوں اور عہدوپیمان سے اہل عراق دھوکے میں نہ آئیں۔بیشتر وعدے غالباً وعدے ہی رہیں گے، پورے نہیں ہونگے۔وعدوں کی حقیقت سمجھنے کیلئے افغانستان، صومالیہ، یمن ، غزہ پٹی اور لبنان کی تعمیر نو کے وعدوں کی تاریخ پر نظر ڈال لی جائے۔ مذکورہ ممالک کی تعمیر نو کے وعدے کئے گئے تھے مگر اب تک پورے نہیں کئے گئے۔ وجہ یہ ہے کہ مذکورہ ممالک ابھی تک تشدد اور انارکی کی بھول بھلیوں سے ہی باہر نہیں آئے۔ غزہ کا تجربہ انتہائی برا ہے۔ جب جب غزہ کی مدد کی گئی تب تب غزہ اتھارٹی کی بدنظمی ، تشدد اور دشمن کے شدید رد عمل سے تعمیر شدہ غزہ تباہ ہوتا رہا۔یہی حال لبنان کا بھی ہوا۔ حزب اللہ نے لبنان کو پے درپے جنگوں کے بھنور کی طرف دھکیل دیا اور اسے تباہ کرادیا۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ لبنان میں تعمیر کا کام ہوتا ہے حزب اللہ اسے تباہ کرادیتی ہے اور پھر اہل لبنان خلیجی اور مغربی ممالک کی طرف دیکھنے لگتے ہیں کہ وہ آئیں اور ان کے یہاں پل اور بندرگاہیں تعمیر کرائیں اور لبنانی فوج کو اپنے قدموں پر کھڑے ہونے میں سہارا دیں۔
عراق نے اپنی غلطیوں کی بھاری قیمت چکائی ہے۔ عراق نے کویت کو لشکر کشی پر 46ارب ڈالر کے معاوضے دیئے۔ 4ارب ڈالر اب بھی باقی ہیں۔ اب عراق کو تعمیر نو کیلئے” 30ارب ڈالر کے وعدے “ملے ہیں۔ترکی نے 5ارب ڈالر، امریکہ نے 3ارب ڈالر ، سعودی عرب اور کویت نے ڈیڑھ ڈیڑھ ارب ڈالر، قطر نے نصف ارب ڈالر اور یورپی یونین نے نصف ارب ڈالر سے بھی کم دینے کا عہد کیا ہے۔
عراق کی تعمیر نو اور اس کی مدد کے وعدے کرنیوالے ممالک کی فہرست پر نظر ڈالنے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ صرف ایک ملک ایساہے جس کا نام فہرست میں شامل نہیں۔ ایران واحد ملک ہے جس نے عراق کے مدد گاروں کی فہرست میں اپنا نام درج نہیں کرایا حالانکہ عراق کی بربادی کا سب سے زیادہ ذمہ دار ملک یہی ہے۔ ایران ہی عراق کے مرکزی اقتدار کو ناکام بنانے کا ذمہ دار ہے۔ ایرانی نظام نے اپنا تسلط قائم کرنے کیلئے عراق کے ریاستی اداروں کے حصے بخرے کردیئے۔ عراقی فوج کے بالمقابل ایک اور فوج”الحشد الشعبی“کے نام سے قائم کردی ہے۔ یہ لبنان میں حزب اللہ سے ملتی جلتی عسکری طاقت ہے۔جو کام حزب اللہ لبنان میں کررہی ہے وہی کام الحشد الشعبی عراق میں انجام دے رہی ہے۔ خامنہ ای نظام کے کارندے سول اسٹیٹ کے حساب پر عراق کی مذہبی جماعتوں کی پشت پناہی کررہے ہیں۔جنرل قاسم سلیمانی کے توسط سے عراقی قیادت سے اپنے فیصلے نافذ کرارہے ہیں۔ قاسم سلیمانی عراقی قیادت کو عسکری اداروں کو کنٹرول کرنے اور جنگوں کے معاملات چلانے سے متعلق ہدایات دے رہے ہیں۔ وہ عراق کو شام اور لبنان کیلئے راہداری کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ اگر ایران کے پاسداران انقلاب مداخلت نہ کرتے تو عراقی بہتر حالت میں ہوتے ۔
سوال یہ ہے کہ ایرانی پاسداران انقلاب کی مداخلت اور مسلح ملیشیاﺅں کے تسلط کے عالم میں عراقی اپنے ملک کی تعمیر و ترقی کے کام کیونکر انجام دے سکیںگے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭