پاکستانی 70کی دہائی میں بغرض معاش نئے ابھرتے ہوئے معاشی حب،مشرق وسطیٰ میں وارد ہونا شروع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستانی ہنر مندوں اور محنت کشوں نے اپنی سخت محنت سے اپنا الگ مقام اور پہچان بنالی۔ مشرق وسطیٰ بالعموم جبکہ سعودی عرب بالخصوص پاکستانیوں کا مرکزِ نگاہ رہے کہ یہاں بنیادی ڈھانچہ کھڑا کرنے کی نہ صرف ابتداء تھی بلکہ ان محنت کشوں کی کھپت ،ایک وسیع اور طویل المیعاد منڈی میں تھی،جو اگلے کئی برسوں تک محنت کش پاکستانیوں کے گھروں کے نہ صرف چولہے گرم رکھ سکتی تھی بلکہ پاکستانی معیشت میں دوڑتے خون کی ضامن بن سکتی تھی۔ وقت نے یہ ثابت کیا کہ ان تارکین وطن نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے یہ دونوں مقاصد انتہائی مستقل مزاجی سے حاصل کئے اور آج بھی زر مبادلہ کی مد میں قریباً نصف (کم و بیش)سعودی عرب میں موجود پاکستانی محنت کش بھیجتے ہیں۔ ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں کے مصداق،سعودی عرب کے حالات بھی بتدریج بدلنا شروع ہوئے اور نئی صدی کے آغاز ہی میں مرحوم شہزادہ نایف کی دور رس نگاہوں نے اس امر کااحساس کر لیا کہ آنے والے سخت وقت میں سعودی شہریوں کو خود آ گے بڑھ کر ملکی معیشت کا انتظام و انصرام سنبھالنا ہوگا،لہذا اسی وقت سے سعودائزیشن کی طرف توجہ دی گئی۔یہ بھی ممکن نہ تھا کہ فوری طور پرنوجوان نسل کو تمام انتظام و انصرام تفویض کر دیا جاتا،اس کیلئے مناسب منصوبہ بندی درکار تھی۔شروع میں سعودی شہریوں کو ملازمت کیلئے پرکشش ترغیبات دی گئیں تا کہ وہ اس طرف متوجہ ہوں اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے ملکی معیشت میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ بتدریج انہیں تعلیم کی اہمیت کا احساس بھی دلایا گیا اور اس ضمن میںشاہ عبداللہ رحمہ اللہ کا کردار بالخصوص قابل ستائش ہے اور سعودی تاریخ میں بطورانمٹ نقش رہے گا،جب انہوں نے اہل اورقابل طالبعلموں کیلئے بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطرحکومتی وظیفہ جات کا اعلان کیا اور تقریباً 5 لاکھ سعودیوں کیلئے ایک خطیر رقم مختص کی۔ آج اس پالیسی کے اثرات واضح ہونا شروع ہو چکے ہیں اور مملکت کے طول و عرض میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد مصروفِ عمل نظر آتی ہے۔ بیرون ملک حاصل کردہ تعلیم نے ان پر خاطر خواہ اثر چھوڑا ہے اور بیرون ملک انٹرن شپ کرنے کے بعد اس نوجوان نسل کے کام کرنے کا انداز انتہائی مختلف ہے۔ درحقیقت یہی وہ وقت ہے جب ایسے پڑھے لکھے نوجوان نہ صرف اپنا مستقبل سنوار سکتے ہیں بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کیلئے بھی ایک واضح راہ کا تعین کر سکتے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اگر ، محتاط اندازے کے مطابق وظیفہ حاصل کرنیوالوں کی تعداد کا صرف 10 فیصد بھی سعودی عرب واپس آجائے تو ملکی معاملات میں براہ راست ان کی عمل داری،ان کا کردار بہت سے تارکین وطن کی ملازمتوں کیلئے پریشان کن ہو سکتا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر ایک ایسے ہی 23سالہ نوجوان سے ملنے کا اتفاق ہواجو رات کے 8،9 بجے اپنے کلائنٹ کے پاس بیٹھا ،اپنی پراڈیکٹ کے بارے میں تفصیلاً بتا رہا تھااور چائے کاایک کپ پینے سے فقط اس لئے گریزاں تھا کہ اسے ایک اور کلائنٹ کے پاس جانا تھا۔یہ واقعتاً ایک خوشگوار مثبت تبدیلی تھی جس کا مجھے سامنا تھا اور میرا اعتماد مزید پختہ ہوا کہ اگر حکمرانوں کی نیت ٹھیک ہو تو وہ اپنے شہریوں کیلئے نہ صرف مواقع پیدا کر لیتے ہیں بلکہ انہیں اپنی پالیسیوں میں شامل ہونے پر مائل بھی کر لیتے ہیں۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کیلئے یقینی طور پر یہ بہت بڑی کامیابی ہے کہ جس طرح وہ بذات خود مملکت سعودی عربیہ کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔اسکے ثمرات بتدریج عوامی سطح پر بھی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں،گو کہ اس میں ان سے قبل کی گئی کاوشوں کو کسی صورت بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا اور اسے کلیتاً تسلسلِ اجتماعی کا نام ہی دیا جا سکتا ہے۔
سعودی عرب کے حوالے سے جہاں یہ امر باعث اطمینان اور فرحت بخش ہیں وہیں یہ حقیقت تارکین وطن کیلئے سوہان روح ہے کہ اب ان کیلئے سعودی عرب میں مواقع انتہائی محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کیلئے اب یہ ممکن نہیں ہو گا کہ وہ مفت میں پہلے کی طرح یہاں کی آسائشیں حاصل کرتے رہیںکیونکہ عالمی منڈی میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں نے سعودی حکومت کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ متبادل ذرائع آمدن پیدا کریں اور اس مقصد کیلئے سعودی حکومت اپنے وژن 2030کے مطابق مختلف مدوں میں اضافوں کی تفصیل پہلے ہی جاری کر چکی ہے۔ ایک طرف سعودی حکومت مقامی طور پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ کر رہی ہے تو دوسری طرف تارکین وطن اور ان کے اہل خانہ پر اقامہ کی فیسیں بڑھائی گئی ہیں ،جو 2020تک ایک تناسب کے ساتھ بڑھیں گی جس پر بعد ازاں موقع کی مناسبت سے نظر ثانی کی جائیگی۔ اس پس منظر میں متوسط بلکہ محنت کش طبقہ جو پہلے انتہائی قلیل آمدن میں بھی (کم ازکم 3 ہزار سعودی ریال)اپنے اہل خانہ کو بہر صورت اپنے ساتھ رکھ سکتا تھا،کیلئے تقریباً نا ممکن ہو چلا ہے۔ بیشتر کم آمدنی والے افراد پچھلے سال ہی اپنے اہل خانہ کو واپس بھیج چکے ہیں جبکہ کئی ایک ایسے ہیںجو ابھی تک پرامید ہیں کہ ممکن ہے، ان قوانین میں کوئی معجزانہ تبدیلی آ جائے لیکن بالآخر انہیں اپنے اہل خانہ کو واپس بھیجنا ہی پڑے گا۔
پاکستان میں رہنے والوں کی اکثریت کا مزاج ایسا ہے کہ سعودی عرب سے چھٹی پر آئے ہوئے مہمانوں کیلئے ان کا رویہ انتہائی مختلف ہوتا ہے جبکہ سعودی پلٹ خاندان (آنے سے قبل ہی)سے متعلق وہ مسلسل اپنی معلومات کا ذخیرہ بڑھاتے رہتے ہیں۔ ان کی ملازمت،آمدن اور بعد از ملازمت ملنے والے مالی فوائد سے متعلق بالعموم ان کے قریبی تعلق والے ان سے بھی زیادہ جانتے ہیں۔ اسی پر اکتفا نہیں ،ایسے خاندانوں کو متاثر کرنے کے خاطر اپنے جھوٹے کاروبار کی روز افزوں ترقی میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں اور آخر میں دبے لفظوں میں سرمائے کی کمی کا تذکرہ کرتے ہوئے،مائل بہ سرمایہ کاری کیا جاتا ہے۔ ایسے واقعات بھی سننے میں آئے کہ کسی نے اپنے بھائی کیساتھ مل کر کاروبار کی غرض سے اپنی عمر بھر کی جمع پونجی شراکتی کاروبار کیلئے دی مگر پلٹنے کے بعد اسی سگے بھائی نے فقط رأس المال واپس تھماتے ہوئے کہا کہ میں نے تو آپ سے قرض لیا تھا،کاروبار تو میرا ہے۔ یوں بھی ہوا کہ یہاں بیٹھے شخص نے اعتبار کرتے ہوئے اپنے واپس پلٹنے سے پہلے ہی،سرمایہ کاری کی ، اسے سہانے خواب تو دکھائے گئے مگر حقیقت میں وہ ساری سرمایہ کاری اللے تللوںمیں اڑا دی گئی اور واپسی پر خسارے کی کہانی سنا دی گئی۔
آج تارکین وطن کو سعودی عرب میں رہنا دشوار ہو رہا ہے۔ان کااصل اضطراب یہی ہے کہ وہ پاکستان جا کر کیا کریں گے۔کئی ایک تو پیش بندی کے نام پر پہلے ہی لٹ چکے ہیں جبکہ کئی حیران و پریشان ہیں کہ یہاں رہتے ہوئے وہ بینکوں میں پیسے رکھ کر سود بھی نہیں کھانا چاہتے اور دوسری طرف پاکستانیوں کی اکثریت انہیں ’’حلال‘‘ منافع کا تاثر دیکر رقم سے ہی محروم کر دیتے ہیں۔ تارکین اس اضطراب کے ساتھ کہاں جائیں!