Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں افراط زر اور اسکی وضاحتیں

یکم مارچ2018ءجمعرات کو سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار ”الاقتصادیہ“ کا اداریہ 

افراط زر کو اہم علامت مانا جاتا ہے۔اسکے باوجود علامت بہرحال علامت ہی ہوتی ہے۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہماری معیشت کس حد تک بیماریوں سے نجات پاچکی ہے اور کس حد تک نجات پانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ روزگار کے مواقع کس قدر مہیا ہورہے ہیں۔ معیار معیشت کس قدر بلند ہوا ہے اور ہونے والا ہے۔ ہم افراط زر پر اس لئے نظر رکھتے ہیں کیونکہ اس کی بدولت ہمیں اقتصادی صورتحال کے حال و مستقبل کا پتہ چلتا ہے۔ افراط زر کی علامت کے اپنے مسائل ہیں۔ کسی بھی ماہر اقتصاد کی ذمہ داری ہو تی ہے کہ وہ درپیش رکاوٹوں اور علامتوں کا تجزیہ کرتے وقت مجموعی صورتحال کو مدنظررکھے۔
محکمہ شماریات کے مطابق 2017ءکے اختتام پر افراط زرمیں 33فیصد کا اضافہ ہوا۔ یہ اضافہ 2013ءکے اعدادوشمار کے تقابل کے تحت دیا گیا ہے۔اسکا مطلب یہ ہے کہ اگر محکمہ شماریات 2007ءوالا اصول اپناتا تو ایسی حالت میں افراط زر 5فیصد تک پہنچ جانا چاہئے تھا۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ افراط زر کی نشاندہی میں بنیاد کا انتخاب اپنی جگہ ایک معنی رکھتا ہے۔
افراط زر اشیاءکے نرخوں میں اضافے کی علامت مانا جاتا ہے۔ کبھی مارکیٹ میں نقدی بڑھ جانے کی وجہ سے بھی افراط زر ہوتا ہے ۔ نقدی میں اضافے کے مختلف اسباب ہوتے ہیں۔
سعودی عرب میں امسال افراط زر کی رپورٹ مسلسل تیسرے سال مثبت رہی ۔ تمباکو اور انرجی مشروبات پر100 فیصد اور ٹھنڈے مشروبات پر 50فیصد منتخب ٹیکس نیز مختلف اشیاءاور خدمات پر 5فیصد ویلیو ایڈڈ ٹیکس ، علاوہ ازیں سال رواں کے شروع سے پٹرول کے نرخوں میں اضافے کے باعث اشیاءکے نرخ بڑھے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ افراط زر کے اسباب کرنسی پالیسی یا علامت کے بنیادی عناصر کے مسائل کی وجہ سے نہیں بلکہ نئی مالیاتی پالیسی سے تعلق رکھتے ہیں لہذا مختلف اقتصادی فیصلوں کو اسی تصور کے تناظرمیں دیکھنا ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں