حسام بن عبد الوہاب زمان ۔ عکاظ
الیکٹرک شاک سے علاج ہماری سیاسی اور معاشرتی زندگی کی نئی اصطلاح ہے جسے ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان نے واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے وضع کی تھی ۔ ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان سعودی عرب میں وسیع پیمانے پر کی جانیوالی اصلاحات کے علمبردار ہیں جو حقیقت میں وژن2030کا تصور دینے والے بھی ہیں ۔ ہمیشہ ہوتا رہا ہے کہ جب بھی کوئی تبدیلی کی جاتی ہے تو لوگ دو گروہوں میں بٹ جاتے ہیں ۔ کوئی اس کی تائید کرتا ہے تو کوئی اس کی مخالفت ۔ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو کچھ عرصے تک غیر جانبدار رہتے ہیں ۔ تبدیلیاں جب بھی کی جاتی ہیں تو حمایت کرنیوالے اس کے مثبت اور بہتر نتائج کے متوقع ہوتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس کی مخالفت کی وجہ سے تبدیلیوں سے برآمد ہونیوالے نتائج سے لوگوں کو ڈراتے رہتے ہیں ۔ گزشتہ برس جب سعودی کابینہ نے وژن 2030ء کی منظوری دی تھی تو سعودیوں کی اکثریت نے اس کی حمایت کی اور سعودی عرب کے بہتر مستقبل کے تصور کو خوش آمدید کہا ۔وژن 2030ء کے تحت نیا سعودی عرب تشکیل ہونے جا رہا ہے جو پرانے سعودی عرب سے یکسر مختلف ہے ۔ یہ سعودی عرب اپنی ثقافت ، عادات، روایات اور اعتدال پسند اسلام کے زریں اصولوں پر عمل کرتے ہوئے تشکیل پا رہا ہے ۔
جیسا کہ ہر تبدیلی کے حوالے سے لوگ حمایت اور مخالفت میں بٹ جاتے ہیں اسی طرح سے وژن 2030ء کے تصور کے تحت تشکیل پانیوالے معاشرے کیلئے اصلاحات کا آغاز کیا گیا تو حمایت کرنیوالے حمایت کرتے رہے تو مخالفین وژن کے تحت ہونیوالی اصلاحات کی مخالفت میں یہ کہتے رہے کہ اس سے معاشرے کی بنیادیں تبدیل ہو رہی ہیں نیز ملک کی معاشی صورتحال بھی متاثر ہو رہی ہے ۔کسی نے وژن کی مخالفت اس لئے کی کیونکہ وہ نفسیاتی طور پر اس کے ہم آہنگ نہیں ہو سکتا ۔ کچھ مخالفین ایسے بھی تھے جو زمام کار نوجوان نسل کے سپرد کرنے سے ڈرتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تبدیلیاں مثبت نتائج بر آمد کرتی ہیں ۔ مخالفین کے اعتراضات پر حکمت کے ساتھ معاملہ کیاجائے اور صبر سے کام لیا جائے یہاں تک کہ وہ وقت آجائے جب تبدیلیوں کے مثبت نتائج سے وہ خود مستفید ہونے لگیں ۔ ہمیں سعودی عرب کی تاریخ سے سبق سیکھنا چاہئے ۔ بانی مملکت شاہ عبدالعزیز اور ان کے صاحبزادوں کی زندگی میں کئی قابل تقلید نمونے موجود ہیں ۔ انہوں نے بھی مخالفین کے اعتراضات پر صبر کیا اور حکمت سے معاملہ کرتے ہوئے اصلاحی کوششیں جاری رکھیں ۔ سابق فرمانروائوں نے مخالفت کے باوجود معاشرے کی اصلاح کی ۔نئی ٹیکنالوجی کی مخالفت کرنیوالے مخالفت کرتے رہے مگر حکومت نے اسے نہایت حکمت کے ساتھ ملک میں متعارف کرایا ۔ اسی طرح لڑکیوں کو اسکول بھیجنے کی بھی سخت مخالفت کی گئی ۔ اسی طرح کے کئی اقدامات ہیں جن کی مخالفت کی جاتی رہی مگر فرمانروائوں نے حکمت کا معاملہ کیا اور اصلاح کے پہئے کو گھماتے رہے ۔ ہم کچھ دیر کیلئے تصور کریں کہ اصلاحات کی ہر کوشش پر اگر مخالفین کی بات مان لی جاتی تو آج ہمارے ملک کا کیا حال ہوتا ۔ تہذیب و تمدن اور ملکی ترقی کس نہج پر ہوتی اور اس نقصان کی کیسے تلافی ممکن ہوتی ۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اصلاح کی کوششیں وقت پر نہ کی جائیں تو اس کے نقصانات ہیں تاہم اصلاحات کی کوششیں دیر سی کی جائیں تو وہ مطلوبہ نتائج فراہم نہیں کرتے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ جس چیز کی اصلاح آج ہو سکتی ہے اگر وہ نہ کی گئی تو کل اصلاح کی کوشش ناکام ہو گی ۔
ہم سب کو الیکٹرک شاک سے علاج کی ضرورت ہے ۔ ہم حکومت کی طرف سے پیش کی جانیوالی سہولتوں کے عادی ہیں ۔ ہمیں اپنی عادتیں بدلنی ہوں گی ۔ ایک زمانہ تھا جب حکومت کی طرف سے تمام سہولتیں پیش کرنا ممکن تھیں مگر اب حالات بدل گئے ہیں ۔ سعودی عرب کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے ۔ آمدنی کے ذرائع بھی محدود ہوتے جا رہے ہیں ۔غیر ملکیوں کی تعداد نامعقول حد تک بڑھ گئی ہے ۔ یہ تمام چیزیں حکومتی خدمات پر بوجھ ہیں ۔ اب ممکن نہیں رہا کہ لوگ حکومت کی طرف سے پیش کی جانیوالی سہولت پر تکیہ کریں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ حکومت ذمہ داری سے دستبردار ہو جائے ۔ حکومت تمام معاملات کی نگراں ہے۔ وہ اپنے شہریوں کو سہولتیں فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے ۔ ضرورت ا س بات کی ہے کہ وژن 2030ء کو حقیقت کا روپ دینے کیلئے ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ یہ وژن جلد از جلد قابل عمل ہو ۔ہمارے ہاں آبادی کا 60فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔ یہ کل ملک کی زمام کار سنبھالنے والے ہیں انہیں بہتر معاشرہ فراہم کرنا ہماری ذمہ داری ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭