عبدالرحمان الراشد۔ الشرق الاوسط
ولی عہد و و زیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ برطانیہ کو ناکام بنانے کی قطری اور ایرانی کوششیں ناکام ہوگئیں۔ بیشتر برطانوی حکام کے علاوہ سیاستدان اورصحافی ، شہزادہ محمد بن سلمان کی شخصیت سے متاثر ہوئے ہیں۔ برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے ٹائمز میں شائع ہونے والے کالم میں واضح طور پر کہا ہے کہ صرف برطانیہ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو چاہئے کہ وہ شہزادہ محمد بن سلمان کے ہاتھ مضبوط کریں۔ انکا اصلاحی منصوبہ سب کے مفاد میں ہے۔قطر کے حکمراں شیخ تمیم اور انکے والد کے ہاتھ میں اب کیا رہ گیا ہے، سوائے اس کے کہ وہ بیٹھ کر سوچیں کہ انکی فٹبال ٹیم سینٹ جرمین کو کس طرح میچز جتوائے جائیںیا پھربرطانیہ سمیت یورپی ممالک میں سعودی عرب کی شبیہ بگاڑنے کی سازشیں کرنا۔ انکی کوشش ہے کہ ریاض کے مقابل دوحہ کو پیش کیا جائے۔ وہ اخوان المسلمین او رحزب اللہ کو ہیرو بناکر پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہی وہ طاقتیں ہیں جن کی وجہ سے پورے خطے میں فسادپھیل گیا ہے۔
برطانوی پالیسی سازوں کے بارے میں معروف ہے کہ وہ جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں کرتے مگر ولی عہد کے دورہ کے موقع پر وہ بہت زیادہ جذباتی ہوگئے۔ برطانوی میڈیا کے علاوہ پارلیمنٹ ارکان نے بھی سعودی حکومت کی پالیسیو ںکی حمایت کی ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ برطانیہ ، قطر کی پالیسیوں کی مخالف ہے کیونکہ قطر موضوع ِگفتگو ہی نہیں تھا۔ برطانوی حکومت نے واضح طور پر یمن میں سعودی موقف کی تائید کی ہے حالانکہ لندن میں قطر اور ایران حامی جماعتوںکے بعض افراد نے ہنگامہ کرنے کی کوشش کی۔اسکے باوجود لندن میں ریاض کی حمایت اور تہران کی مخالفت کا موقف اختیار کیاگیا۔
ولی عہد کے دورہ سے ایک ہفتہ قبل برطانیہ نے سلامتی کونسل میں ایران کی تخریبی پالیسیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی۔ یمن میں حوثی باغیوں کی پشت پناہی اور انہیں بیلسٹک میزائل فراہم کرنے کے خلاف مذمتی قرارد اد بھی پیش کی گئی جسے روسی ویٹو نے مسترد کردیا۔ ولی عہد کا دورہ برطانیہ اس حوالے سے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ سعودی عرب ، برطانیہ سمیت یورپی ممالک کی یمن کے حوالے سے اپنی پالیسیوں کی حمایت چاہتا ہے۔ مخالفین نے بھرپور کوشش کی کہ اصل مسئلے سے توجہ ہٹا کر کسی اور طرف موڑ دیا جائے۔ وہ جنگ کے باعث ہونے والے انسانی المیے کو پیش کرتے رہے۔ مسئلے کی اصل بنیاد کی طرف کوئی توجہ نہیں دی اور جان بوجھ کر اس بات کو گول کرگئے کہ مسئلے کی اصل بنیاد حوثی باغی ہیں جنہوں نے یمن کی دستوری حکومت کیخلاف بغاوت کرکے صنعاءکو ایران کے حوالے کرنے کی کوشش کی۔
شہزادہ محمد بن سلمان کو یمن کے مسئلے کی گہرائی کا اچھی طرح سے اندازہ ہے۔ وہ یمن میں دستوری حکومت کی مدد کرنے میں اس لئے بھی حق بجانب ہیں کیونکہ یمن میں دستوری حکومت کے سقوط سے نہ صرف یمنی علاقوں میں انتشار پیدا ہوگا بلکہ پورے خطے میں انارکی پھیل جائیگی۔ اس پوری جنگ کا اصل مقصدیہ ہے کہ دستوری حکومت کی مدد کی جائے اور وہاں سے باغیوں کا صفایا کیا جائے۔ یہ وہ باغی ہیں جو اسلحہ اور ایران کی پشت پناہی سے پورے یمن میں قبضہ کرکے خطے کو شدت پسندی کی جانب لیجانا چاہتے ہیں۔
ولی عہد کا سہ روزہ دورہ برطانیہ انتہائی کامیاب رہا حالانکہ مخالفین نے بھرپو رکوشش کی کہ برطانوی حکام کو مخالف موقف اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے تاہم انکی یہ کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔ مخالفین یمن کے مسئلے کو لیکر برطانوی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے تھے لیکن حکومت نے انکی مرضی کے برخلاف وہ موقف اختیار کیا جو ملک و قوم کے مفاد میں تھا۔ برطانوی حکام نے ولی عہد کے ساتھ یمن کے مسئلے پر گفتگو کرنے کے بجائے معاشی اصلاحات ،اعتدال پسند اسلام، سعودی نوجوان اور خواتین کو مواقع فراہم کرنا اور وژن 2030کے حوالے سے بات چیت کی۔ انتہائی سخت حالات اور چیلنجوں کے باوجود ولی عہد کا دورہ کامیاب رہا۔ اس سے اندازہ ہوا کہ ریاض نہ صرف خطے میں بلکہ پوری دنیا میں اپنا مقام اور وزن رکھتا ہے۔ دنیا اعتدال پسندی اور رواداری کی جانب تیزی سے گامزن ہونے کیلئے تیار ہے۔ اسکے پاس دہشتگردی ، انتہا پسندی اور تشدد کےلئے وقت نہیں ۔ اب ریاض اس حوالے سے کردار ادا کرے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭