نعمہ جامع ۔ الوطن
بعض لوگ اپنے ذہنو ںمیں یہ بات بٹھا چکے ہیں کہ سعودی محنت مشقت نہیں کرتے۔ اس مسئلے پر اظہار خیال کرتے وقت ہمیں کسی بھی انسان کی فکر کی اصلاح کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہمیں تو انتہائی اصولی انداز میں اس موضوع پر بات چیت کرنی ہے اور شفاف انداز میں اظہار خیال کرنا ہے۔
کیا سعودی واقعتامحنت مشقت کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں انتہائی دیانتداری سے عرض ہے کہ جی ہاں سعودی شہری نہ صرف یہ کہ محنت مشقت کرتے ہیں بلکہ محنت کے دلدادہ بھی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ سعودیوں کی محنت کا طریقہ کار مختلف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سعودی جب محنت کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنے یہاںروایتی انداز کی تلاش میں لگ جاتا ہے۔ یہ بات اسے ورثے میں ملی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کہیں بھی کام کرے تو سردار کے انداز میں کرے۔ سرداری اسکی سرشت میں داخل ہے۔ وہ دولت، اثر و نفوذ ، طاقت اور اقتدار کا مالک بنے رہنا چاہتاہے۔ وہ مراعات یافتہ کام کا متلاشی ہوتا ہے۔ اسے اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ اس عمل کے ذریعے اسے کیا کچھ حاصل کرنا ہے۔کہہ سکتے ہیں کہ سعودی ملازمت سے زیادہ عہدے کے متلاشی ہوتے ہیں۔ وہ تجربے کے بجائے حیثیت کے چکر میں پڑے ہوتے ہیں۔ اسکا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ سعودی شہری تیزی سے کام کرتے ہیں اور مہارتوں کے فروغ کے بغیر سہل پسندی سے کام کرتے ہیں۔ سعودی کے ذہن میں ملازمت کا مقصد سماجی حیثیت اور دولت کا حصول ہوتا ہے اسی لئے وہ عرق ریزی کے چکر میں نہیںپڑتا۔ عام طور پر بعض لوگ سعودیوں کے حوالے سے یہی تصور ذہن نشین کئے ہو ئے ہیں۔ یہ غیر اصولی بات ہے کہ سب کے سب مدیر بن جائیں اور سب کے سب اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوجائیں۔ ہر انسان کو مدیر بننے کا خواب دیکھنے کا حق ہے۔ اسے یہ بھی حق ہے کہ وہ اپنی آرزوﺅں کو پورا کرے۔ شرط یہ ہے کہ آرزوﺅں کی تکمیل کیلئے محنت مشقت کا راستہ اختیار کرے۔ سفارش یا رشتہ داری کے بل پر ملازمت حاصل کرنے کے چکر میں نہ پڑے۔
میں ایمانداری سے یہ بات کہنا چاہوں گی کہ سب کے سب سعودی ملازمت کے حوالے سے وہ سوچ نہیں رکھتے جس کا اظہار مذکورہ بالا سطور میں یہ کہہ کر کیا گیا ہے کہ سعودی منصب اور عہدے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ملازمت کو نہیں۔ بعض ایسے ہیں جو زیروسے کام شروع کرتے ہیں۔ محنت مشقت سے کام لیتے ہیں۔ زمانے کی سختیاں جھیلتے ہیں۔ رفتہ رفتہ اپنا ہدف پورا کرتے ہیں۔
جب ہم سعودیوں کی بابت یہ کہتے ہیں کہ وہ پُرآسائش لوگ ہیں اور قسمت والے ہیں تو اس میں کوئی غلط بات نہیں۔ ایسا ہے۔ انہیں سمجھدار قیادت نصیب ہے۔ یہ قیادت بہتر سے بہتر تر کےلئے کوشاں ہے اسی لئے سعودی وژن 2030جاری کیا گیا ہے۔ سعودی حکومت نے حال ہی میں اربوں ریال مالیت کے معاہدوں پر دستخط کئے ہیں۔ ان سے نئی ملازمتیں پیدا ہونگی۔سعودی شہریوں کو محنت مشقت کے طور طریقے تبدیل کرنا ہونگے۔ یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ ہمیں اپنے یہاں محنت مشقت کا ایسا نیا کلچر تخلیق کرنا ہوگا جو اجتماعی جدوجہد اور ایک ٹیم کے جذبے سے کام کرنے کی طرح ڈالے۔ مفاد عامہ کو انفرادی مفادات پر ترجیح دینے کا احساس دے۔ ایسا ہوگا تب ہی سعودی وژن 2030 کے تقاضے پورے ہونگے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ سعودی شہری جاپانیو ںکی طرح محنت مشقت کے نشے سے چور ہوجائیں۔ نہیں وہ محنت بھی کریں اور محنت کے ساتھ آرام پر بھی توجہ دیں۔ زندگی ، مذہب اور فکر ہر شعبے میں توازن ہی کامیابی کی کلید ثابت ہوگی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭