شہزاد اعظم
وطن سے کس کو محبت ہوتی ہے اور کس کو نہیں، اس کے حوالے سے ہم کوئی حتمی بات کہنے سے قاصر ہیں مگر یہ بات بالیقین کہتے ہیں کہ ہمیں وطن سے محبت اس وقت سے ہے جب وطن کو بھی ہم سے محبت نہیں ہوئی تھی۔پھر جب ہم بیرون وطن آئے تو یہ محبت عشق میں بدل گئی۔پاکستان میں تو یہ عالم تھا کہ ہمیں اپنا، اپنا لگتا تھا اور غیر ،غیر مگر جب سے پردیس میں قیام شروع کیا توحالت یہ ہوگئی کہ وطن سے تعلق رکھنے والی ہر ہستی بالکل اپنی لگتی ہے۔وطن یا اہالیان کو کوئی معمولی سی خراش بھی آجائے تو لگتا ہے کہ جگر کے ٹکڑے ہوگئے۔وطن اور وہاں بسنے والی شخصیات کا دردہماری ہر ہر سانس میں بسا ہوا ہے۔ان کی ترقی، خوشحالی ، کامیابی اور وقار کے لئے ہم مسلسل فکر مند رہتے ہیں۔
ایک شب ہم اسی ”درد“ کو لئے لئے سو گئے اور 2030ءکے پاکستان میں جا پہنچے۔ہر چیز بدلی ہوئی ملی۔معاشرے کے طبقات میں بے حد تفاوت پیدا ہو چکا تھاجس کا اندازہ ہمیں جہاز سے اترتے ہی یوں ہو گیا کہ ایئر پورٹ سے گھر جانے کے لئے دو آپشن تھے۔ایک یہ کہ عام ٹیکسی سے سفر کیا جائے اوردوسرا ”فلائنگ لیموزین“ لی جائے۔ان دونوں کے کرایوں میں صرف 50ہزار روپے کا فرق تھا۔پہلے ایک اخباری کارکن کی تنخواہ 10ہزار کے لگ بھگ ہوتی تھی مگر اب یہ تنخواہ نصف کروڑ روپے ماہانہ ہو چکی تھی کیونکہ مہنگائی میں اضافے کا سلسلہ پہلے سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاری تھا۔
نینو ٹیکنالوجی بے حد عام ہو چکی تھی۔ بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کی کلائی میں زیر جلد”نینو چپ“نصب کروانے کا فیشن ناگزیر شکل اختیار کر چکا تھاجس کی وجہ سے اولاد کے لئے یہ امر ممکن ہی نہیں رہا تھا کہ وہ جھوٹ بول کر ماں باپ کو اندھیرے میں رکھ سکے۔ والدین جب چاہیں موبائل کے ذریعے اپنی اولاد کے بارے میں جان سکتے تھے کہ وہ کہاں ہے اور کس سے کیا گفتگو کر رہی ہے۔ یہی نہیں، میاں بیوی بھی ایک دوسرے سے جھوٹ بولنے کے قابل نہیں رہے تھے کیونکہ کوئی بھی فریق جب چاہتا،کلائی میں نصب نینو چپ سے بلیو ٹوتھ کے ذریعے تمام ڈاٹا منتقل کر کے وڈیو کے انداز میں دیکھ لیتا کہ ان کی شریک سفر ہستی کہاں کہاں گئی اور کس سے ملی۔
اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں صرف غریبوں کے بچے تعلیم حاصل کرتے نظر آتے کیونکہ ان کے غریب ماں باپ اربوں روپے کی” نینوایجوکیٹڈ چپ“ خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے جبکہ امیر والدین کے بچوں کو یہ کہتے سنا گیا کہ ”مام! میں مریض دیکھتے دیکھتے اکتا گئی ہوں، اب میں اپنا پروفیشن چینج کرنا چاہتی ہوں، سوچتی ہوں کہ ”پی ایچ ڈی ان ماس کمیونیکشین“ کی چپ اپنے برین میں انسٹال کروا لوں، صرف 1000ملین ڈالر کی ہے۔“
”جمالیاتی جراحت “بھی بے حد عام ہو چکی تھی۔ بہت سی چپٹیوں نے ستواںناک بنوا کر چپٹے پن سے نجات حاصل کر لی تھی جبکہ بہت سی کالیوں نے اپنی رنگت کو گورا بنا لیا تھا۔ مستقل سنگھار کے لئے ”پگمنٹیشن“کا سلسلہ بھی عام تھا۔ گالوں پرمستقل سرخی اور پپوٹوں پر ”آئی شیڈز“کیلئے اسی ٹیکنالوجی سے مدد لی جاتی تھی۔اسی لئے اونچے اور امیر گھرانوں میں کوئی بھی ”مٹیار“قدرتی اوصاف کی حامل نہیں رہی تھی۔جہاں دو لڑکیاں جمع ہوتیں ، وہ ایک دوسرے کو مرعوب کرنے کے لئے کہتیں کہ ”آئی ایم آل نیچرل“۔ان حالات میں ضرورت رشتہ کے اشتہار وں کا متن بھی بدلا گیا تھا ۔ان میں لکھا ہوتا تھا کہ ”نینو چپ سے پاک، مادر علمی سے تعلیم یافتہ لڑکے کے لئے ”آل نیچرل“ لڑکی کا رشتہ درکار ہے۔رشتہ پسند آجانے کے بعد لڑکی کو ”نینو چپ“ کی ممکنہ انسٹالیشن کاشبہ دور کرنے کے لئے مکمل اسکیننگ سرٹیفکیٹ پیش کرنا ہوگا۔شادی کے بعد ایسا کوئی سراغ ملنے پر فوری طلاق دیدی جائے گی۔“
اسی دوران ایک روز ہم فلائنگ ٹیکسی میں بیٹھ کر 10کلومیٹر دور اپنے ایک دوست کے گھر پر اترے۔ ایک لاکھ روپے فی کلومیٹر کے حساب سے 10لاکھ کرایہ ادا کرنا پڑا۔دوست کے گھر میں ڈرائنگ روم کی دیوار پر کسی بہت بڑے کیلنڈر کی طرح کاغذ لٹکا ہوا تھا جس پر ایک خاتون سنگھار کی جگہ رنگ و روغن اور نقش و نگار والے فیشن سے ڈھکی خبریں سناتی نظر آ رہی تھی۔اس نے کہا کہ ”لاہور سے ہمارے نمائندے کی رپورٹ“ ، یہ کہتے ہی اس جسیم اسکرین پر ایک سیاسی رہنما نظر آئے جو کہہ رہے تھے کہ ہم نے جب حکومت سنبھالی تو خزانہ خالی تھا۔جب ہم نے اسے بھر دیا تو ہمیں کرسی سے اتار دیا گیا۔آپ لوگ مجھے پھر ووٹ دیں، میں آپ کو روٹی، کپڑا ،مکان اور نینو چپ مفت دوں گا اور اگر وعدہ پورا نہ کر سکاسیاست کو خیرباد کہہ دوں گا۔“اس پر سب حاضرین نے بیک آواز کہنا شروع کیا ”جھوٹا،جھوٹا“۔اس نے لاکھ کہا ”سنئے، سنئے“ مگر کوئی سننے کے لئے تیار نہیں ہوا اور اس کے ساتھ ہی رپورٹ ختم ہوئی اور اشتہار نمودار ہوا،”الیکشن ..ٹوئنٹی تھرٹی، صرف 20دن باقی۔“پھر” ٹنگ ٹنگ ٹنگ “موسیقی بجنا شروع ہوئی ، آواز اتنی کرخت تھی کہ ہم ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔ پتہ لگا کہ کوئی دروازے پر گھنٹیاں بجا رہا ہے۔اس وقت ہمیں خیال آیا کہ وطن میںسب کچھ بدل سکتا ہے مگر سیاست کے وہی دہائیوں قدیم جھوٹ ، آخر یہ سچ میں کب بدلیں گے؟