کہتے ہیں کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے لیکن اب تو تیسرا نام سیاست کا بھی اس میں جوڑ لیا جانا چاہیے۔ سیاست کے سلسلہ میں ایک قدیم ہندوستانی فلاسفر کو ٹلیہ (چانکیہ) نے تو اس سے 2قدم آگے بڑھ کر اس کی ایسی تعریف کردی ہے جس میں پیسہ، طاقت، سزا اور نفرت کا استعمال بھی جائزہے۔ آج کی سیاست میں موخر الذکر کی چاروں باتوں کو فوقیت حاصل ہے۔ ہندوستان کی سیاست میں ان باتوں کا استعمال عرصہ سے ہورہا ہے۔حال کے زمانے میں تو دولت اور منافرت کا دور دورہ ہے۔ اس وقت ملک کے اکثر حصوں پر بی جے پی کی حکومت قائم ہے ۔صرف جنوبی ہند اس پارٹی سے اچھوتا تھا لیکن حال میںکرناٹک اسمبلی کا جو الیکشن ہوا ہے وہ دنیا بھر کیلئے چشم کشا ہے، اس ریاست کا الیکشن ہی منافرت اور فرقہ پرستی کو سامنے رکھ کر لڑا گیا۔ یہ الزام ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کانگریس کا ہے جو برابر سکڑتی جارہی ہے۔ کرناٹک جہاں اس کی حکومت عرصہ سے قائم تھی حالیہ الیکشن کے نتائج کے بعد بی جے پی وہاں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ اس طرح اندازہ ہوتا ہے کہ جنوبی ہند پر قابض ہونے کے لیے بی جے پی نے دستک دیدی ہے۔جس وقت کرناٹک میں الیکشن کا اعلان بھی نہیں ہوا تھا تو وہاں کی زمین میں فرقہ پرستی کے بیج بو دیئے گئے تھے اور جب الیکشن کا اعلان ہوا تو پہلے سے اس زمین پر فرقہ پرستی کی فصل لہلہانے لگی تھی ۔ الیکشن میں جب سیاسی پارٹیاں اتریں تو ان سب کے ایجنڈے میں ترقیات ، روزگار، بدعنوانی کی بیخ کنی اور جرائم پر قابو پانا شامل نہیں تھا، سبھی پارٹیاں دلتوں اور پس ماندہ اقوام کی حمایت میں زمین و آسمان کے قلابے ملارہی تھیں لیکن دلتوں پر مظالم ڈھانے کے واقعات میں ذرا بھی کمی نہیں آرہی تھی پورے ملک میں جگہ جگہ دلتوں کے مسیحابابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کے مجسموں کو نقصان پہنچایا جارہا تھا لیکن ان مجسموں کو توڑنے والے پکڑے نہیں جارہے تھے۔ جہاں تک بات اقلیتی فرقہ کی ہے تو اب آر ایس ایس جو ہندو قومیت کی نظریہ ساز جماعت ہے، اس نے آزادی کے بعد سے ہی یہ طے کرلیا تھا کہ اگر ہند کو ہندو نیشن بنانا ہے تو مسلمانوں کو بے دست و پا کردینا بہت ضروری ہے اور اس نے اس سلسلہ میں اپنی تنظیم میں ایک خصوصی سیل قائم کرردیا ہے جو اسی ایجنڈے پر کام کرہا ہے۔ کرناٹک کا پورا الیکشن اسی بنیاد پر لڑا گیا وہاں کے عوامی مسائل تو سامنے ہی نہیں آئے۔ ہمارے لیڈران ٹیپو سلطان پر بحث کرتے رہے اسی لئے بی جے پی نے اپنے جو اسٹار مشتہرین کی جماعت تیار کی تھی ان میں وہی لوگ آگے رکھے گئے تھے جو سماجی انصاف کے کبھی حامی نہیں تھے نیز ملک کی اقلیتوں کو ان کے حقوق دینے کے کسی طرح حق میں نہیں تھے ۔بعض لیڈر تو اس منافرت کی آندھی کو ہوا دینے میں اتنے مست ہوگئے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں بھی بھلا بیٹھے جب اپوزیشن نے شور مچایااور کہا کہ عوام پریشانیوں سے دو چار ہیں حالیہ طوفان و باد و باراں نے یوپی کے سیکڑوں افراد کو اپنا لقمہ بنا لیا ۔ان کے مکانات زمیں بوس ہوگئے باغات پھلوں سے خالی ہوگئے تب جاکر ایسے لیڈران کو ہوش آیا اور وہ اپنے حلقوں و ریاستوں میں آئے تو لیکن پھر بڑی سرعت کے ساتھ دوبارہ کرناٹک کے ووٹروں کو بہکانے کے لیے واپس بنگلور پہنچ گئے۔ جنوبی ہند میں کرناٹک کی سرزمین ہمیشہ باہری لوگوں کے لیے بڑی سخت رہی ہے ۔چاہے وہ انگریز رہے ہوں یا کوئی اور ۔اس ریاست اور حکومت کی حفاظت ٹیپوسلطان جیسے بہادر ہندوستانی نے کی اور جب کرناٹک (میسور) فتح ہوا سلطان ٹیپو شہید ہوگئے تو انگریزوں نے نہ صرف کرناٹک بلکہ پورے ملک پرآسانی سے قبضہ کرلیا۔ آج شہید ٹیپو سلطان کو ہمارے ملکی سیاسی لیڈروں نے ایک عجیب و غریب شخصیت بنا کر رکھ دیا ہے۔چونکہ بی جے پی اور آرایس ایس کا پرانا قول رہا ہے کہ الیکشن میں فتح حاصل کرنی ہے تو کوٹلیہ کے ایک اہم اصول تفریق اور منافرت کو اپنا لو اس کے بعد کامیابی تمہارے قدم چومے گی ، اس کے لیے جو بھی جتن کرنا پڑے کرڈالو۔ کرناٹک میں انتخابی مہم ختم ہوتے ہی وزیراعظم نریندر موی نیپال کے دورے پر چلے گئے لیکن اس بار ان کا دورہ بڑا معنی خیز تھا۔ کانگریس کے بڑے لیڈروں نے الزام لگایا ہے کہ اس دورے کے تانے بانے بہت پہلے سے تیار کرلئے گئے تھے۔ راجستھان کے سابق وزیراعلیٰ وسینیئر کانگریسی لیڈر اشوک گہلوت نے الزام لگایا کہ عین جس وقت کرناٹک میں ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ بوتھوں پرلوگ جانے کی تیاری کررہے تھے تو اس وقت وزیراعظم نیپال کی راجدھانی کٹھمنڈو میں تھے۔طے شدہ منصوبہ کے تحت اس پورے پروگرام کوبیک وقت ملک کے تقریباً سبھی ہندی انگریزی اور علاقائی چینل براہ راست ٹیلی کاسٹ کررہے تھے۔ کانگریس کا کہنا تھا کہ یہ انتخابی ضابطہ اخلاق کیخلاف ہے کیونکہ یہ سب جنوبی ہند کے عوام خصوصاً کرناٹک ریاست کے ووٹروں کو ورغلانے کے لیے کیا جارہا تھاتاکہ ان میں یہ پیغام جائے کہ اگر کوئی ہندو کاز کا تحفظ کرسکتا ہے تو وہ بی جے پی اور وزیراعظم مودی ہی ہیں ۔اگر وزیراعظم کے اس دورے کو دیکھا جائے تو یہ بات سمجھ میں آجائیگی کہ کرناٹک الیکشن ہی نہیں پارلیمنٹ کے 2019 کے الیکشن کو نظر میں رکھ کر یہ ساری تیاریاں عرصہ سے کی جارہی تھیں۔ ہندوستان اور نیپال2 ایسے پڑوسی ملک ہیں جن کی سرحدیں ہمیشہ سے کھلی ہوئی ہیں۔ نیپالیوں پر مشتمل ہندوستانی فوج میں گورکھا رجمنٹ پہلے سے مضبوط ہے۔جس بس سروس کا افتتاح وزیراعظم نے جنک پور سے اجودھیا کے لیے کیا ہے وہ کتنی کامیاب ہوگی یہ تو آنیوالا وقت ہی بتائے گا۔ ویسے اگر ہندوستان نیپال سے ٹرین خدمات کا آغاز کرتا تو یہ منصوبہ بڑا کامیاب ہوتا کیونکہ لاکھوں نیپالی ہندوستان کے بڑے شہروں میں مختلف قسم کی ملازمتیں کرتے ہیں یا چھوٹے موٹے کاروبار ۔ آج بھی نیپال کے سرحدی علاقوں سے ہند کی بسیں ان نیپالیوں کو بھر بھر کر پٹنہ، لکھنؤ، دہلی اور کولکتہ لے کر جاتی ہیں اور انھیں اسی طرح واپس بھی لاتی تھیں ، چین نے تو تبت سے کٹھمنڈو کے مضافات ریلوے لائن ڈال دی ہے لیکن ہم اس سمت میں آگے نہیں بڑھ سکے بلکہ جو بسیں لکھنؤ ،کانپور اور دہلی سے براہ راست نیپال کے شہر لمبنی جایا کرتی تھیں۔ اندرا گاندھی کا دور ختم ہونے کے بعد وہ بس سروس اب صرف سرحد تک محدودرہ گئی ہے ۔نیپال کبھی ہندو نیشن ہوا کرتا تھا لیکن وہاں راج شاہی کے خاتمہ کے بعد اب جمہوریت آچکی ہے۔ اسکے پرانے حالات پر واپس لانے کے لیے آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد نے بڑی کوششیں کیں لیکن نیپال کی سیاست میں بائیں بازو کے رجحان کے غالب آجانے کی بنا پر مذکورہ تنظیمیں نہ صرف ناکام ہوگئیں بلکہ ان کے ذریعہ کھڑی کی گئی نیپال کی مدھیشی جماعت کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔جاری برس کے اوائل میں نیپال کے معزول راجا گیانیندر سنگھ نے خصوصی طور پر لکھنؤ کا دورہ کیا تو یہاں وزیراعلیٰ یوگی سے ان کی تنہائی میں کئی گھنٹے گفتگو ہوئی۔ اس ملاقات کو بھی کانگریس حالیہ وزیراعظم کے کٹھمنڈو دورہ سے جوڑ کر دیکھ رہی ہے۔