معذور بھائی کو کئی کروڑ روپے بھیجے، اسکے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے اخراجات برداشت کئے، ایک بیٹے کو سعودی عرب بلاکر ملازمت دلوائی لیکن سب ہاتھ جھاڑ کر بیٹھ گیا
مصطفی حبیب صدیقی ۔ کراچی
بات صرف یہ نہیں تھی کہ وہ سب کچھ لٹوا چکا تھا بات یہ بھی تھی کہ وہ تو اپنوں کا اعتماد بھی کھوچکا تھا۔اپنے پیارے وطن سے کوسوں دور ،بیوی بچوں ،دوست احباب،گلیوں اور چوپالوں کی یادیں لئے ایک شخص زندگی کے بہترین دن اس لیے تنہا گزار دیتا ہے کہ اس کا مستقبل سنور جائے گا مگر پھر اس کے اپنے ہی جب اسے لوٹ لیں تو وہ ٹوٹ کر اس قدر بکھر جاتا ہے کہ پھر دوبارہ یکجا نہیں ہوپاتا۔یہ کہانی صرف جاوید اختر کی نہیں ایسے بہت سے پاکستانیوں کی ہے ۔
جدہ میں40سال سے محنت مزدوری کرنے والے جاوید اختر کا تعلق اسلام آباد سے ہے ،گزشتہ دنوں انہوںنے جدہ میں اپنی کہانی سنائی۔مجھ تک ان کی کہانی ایک صحافی دوست کے ذریعے پہنچی۔ جاوید اختر نے سعودی عرب میں دن رات ایک کرکے محنت کی اور پیسہ پاکستان بھیجتے رہے۔پاکستان میں انکا ایک معذور بھائی غضنفر ڈار ولد غلام محمد ہے۔اسلام آباد میں مقیم بھائی غضنفر نے اپنے بھائی کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ان کئی برسوں میں جاوید اختر نے غضنفر کو کئی کروڑ روپے بھیجے اور ہدایت کی کہ اس کے لئے ملک میں پلاٹ اور دیگر پراپرٹی خرید لے تاکہ جب وہ واپس اپنے وطن لوٹے تو اپنی بیوی بچوںکے ساتھ عزت کی زندگی گزار سکے۔ جاوید اختر نے مکمل اعتماد کرتے ہوئے اپنے بھائی غضنفر ڈار کو پاور آف اٹارنی بھی دے دی تھی اس کے علاوہ اس کی ہر ممکن امداد بھی کرتا رہا۔ اس کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم بھی دلائی اور تمام اخراجات برداشت کئے یہاں تک کہ اپنے بھائی کے ایک بیٹے کو سعودی عرب بلا کر نوکری پر بھی لگوا دیا ۔
جاوید اختر کو اپنے بھائی پرمکمل بھروسہ تھا،یہی وجہ تھی کہ اس کے کئی دوستوں نے سمجھایا کہ اتنا اعتماد نہ کرو اور اپنے نام ہی پراپرٹی رکھو جاوید اختر نے کسی کی نہیں سنی۔ اسلام آباد میں غضنفر نے اپنے بھائی کے اعتماد کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام جائیداد اپنے نام کرلی۔کئی برسوں کی محنت پر پانی پھر گیا۔جاوید اختر کے بینک میں رکھے پیسے بھی بھائی لے چکا تھا۔ جاوید اختر نے بھائی کو پاور آف اٹارنی دے رکھی تھی۔
گزشتہ دو سال سے سعودی عرب میں اقتصادی اصلاحات کا سلسلہ جاری ہے ،جس کی بنا پر حکومت سعودی عرب نے غیرملکیوں پر مختلف ٹیکس نافذ کردیئے ہیںاور اب غیرملکی کارکنان سعودی عرب میں رہنے کے قابل نہیں رہ گئے جس کی وجہ سے ہزاروں کارکنان روزانہ واپس جارہے ہیں۔ انہی حالات کے پیش نذر جاوید اختر نے بھی بوریا بستر باندھا اور پاکستان پہنچا۔ابھی وہ چھٹیوں پر آیا تھا کہ اپنی پراپرٹی اور بینک بیلنس کا جائزہ لے کر مستقل طور پر منتقل ہوجائے مگر اسے جب معلوم ہوا کہ اس کے پاس اب کچھ نہیں سب کچھ اس کے سگے بھائی نے ہتھیا لیا ہے تو وہ نہایت افسردہ ہوگیا۔جاوید اختر نے پہلے تو ذاتی طور پر خاندان کے ساتھ مل کر اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کی،بھائی کو اپنے احسانات یاد دلائے مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا تو پھر مجبوراً رمنا تھا نہ اسلام آباد کے ایس ایچ او کو درخواست دی ۔یہ درخواست پاکستانی قونصل خانہ نے اوورسیز پاکستانیز فاﺅنڈیشن کے ویلفیئر سروس ڈویژن کو 5 جون 2017 کو بھجوائی ۔
جاوید اختر قانون کا سہارا لیتے ہوئے عدالت سے انصاف مانگ رہا ہے لیکن اس کے مسئلے پر کوئی بھی کاروائی نہیں ہو سکی۔ جاوید اختر نے حکومت پاکستان اور عدالت عالیہ سے اپیل کی ہے کہ اس مسئلے پر اسے انصاف دلایا جائے کیونکہ ایک کروڑ52 لاکھ روپے جبکہ مکان، پلاٹ اور بینک میں جمع رقوم سے بھی وہ ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔
یہ واقعہ ایک جاوید اختر کا ہی نہیں ہے سیکڑوں پاکستانیوں کا ہے جو بیرون ملک رہ کر اپنے عزیزوں پر اعتماد کر کے ان کو یہاں سے رقوم ذرمبادلہ کے ذریعے بھیجتے ہیں اور جس پر حکو مت بھی انحصار کرتی ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ اوور سیز پاکستانیوں کے مسائل کے حل کے لئے اور ان کو انصاف دلانے کے لئے اسپیشل عدالتوں کا قیام عمل میں لائے جہاں ان کو بلاتاخیر انصاف مل سکے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭