اسرائیل کے نئے مورخین اور فلسطینیوں کے حقوق
نبیل السہیلی ۔ الحیاة
20ویں صدی کے 8ویں عشرے کے اواخر میں اسرائیل میں نئے مورخین نے سر ابھارا۔ اسرائیلی تاریخ نویسوں نے اسرائیلی ریکارڈ میں موجود دستاویزات کا مطالعہ کرکے حقائقِ حال اجاگرکرنے کی ہمت دکھائی۔ اسرائیل نے اپنے قیام کے 40برس بعد 1988ءمیں اپنے ریکارڈ پر عائد پابندیاں اٹھانے کیلئے قانون جاری کیا۔ اسکی بدولت اسرائیلی اسکالرز اپنی ریاست کے قیام سے چند برس پہلے اور قیام کے بعد کے چند سالوں کی بابت سرکاری دستاویزات تک رسائی میں کامیاب ہوسکے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بعض مورخین نے 1948ءکے دوران فلسطینی پناہ گزینوں کی جبری بے دخلی کی بابت اسرائیلی کہانی کو نئی شکل میں پیش کیا۔ نئے مورخین کی تحریک کے بانی بنی موریس ،اسی طرح یوسی بیلن ، اسرائیل شاحاک، ایلن بابے، زینیف اسٹیل نہل ، موشے اسمش ، سمیہافلابان، بار یوسف ، عروہ رام، سامی سموحا، باروخ کیمرلنگ، تمار کارتیال، سارہ کیزر ، جرسن شاویر، بارون ازراحی، شلومو سویرسکی، ٹوم سیفگ، ینتھن شیبتھر، یورین بن علی عازر، بازیل ایلا شوہات اور افیش شلاحم وغیرہ اسرائیل کے نئے مورخین کی تحریک سے وابستہ ہیں۔
بعض اسرائیل اسکالرز نے فلسطینی عوام کے قتل عام کے واقعات بھی تحریر کئے۔ مثال کے طور پر فلسطین کے ساحلی شہرحیفا کے الطنطورہ میں فلسطینیوں کے قتل عام کو نمایاں کیا گیا۔ ابھی تک اسرائیل کی سیکڑوں فائلیں بند خانوں میں پڑی ہوئی ہیں۔ خاص طور پر فلسطینی شہروں اور قریوں پر صہیونیوں کے ناجائز قبضے کی منصوبہ بندی ، طاقت کے بل پر قتل عام مچا کر فلسطینیوں کو ان کے شہروںاور قریوں سے بیدخلی والی فائلیں ایسی ہیں جنہیں چھیڑا ہی نہیں گیا ۔ علاوہ ازیں مئی 1948ءکے دوران اسرائیل کے قیام سے پہلے اور بعد میں صہیونی تحریک اور بڑی طاقتوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے امور پر بھی ابھی تک پردہ ہی پڑا ہوا ہے۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ اسرائیل کے سیاسی تغیرات نے نئے مورخین کی تحریک کو سر ابھارنے میں کلیدی کردارادا کیا۔
اسرائیل کے نئے مورخین نے متعدد کتابیں شائع کی ہیں۔ ان میں سے نمایاں ترین کتاب ”فلسطینی پناہ گزینوں کا مسئلہ کیسے پیدا ہوا؟“ ہے ۔یہ بنی موریس کی کتاب ہے۔ اسی طرح ”اسرائیل کا جنم ایک افسانہ اور ایک حقیقت “ یہ سمحا فلائم کی تالیف ہے جبکہ ایلان بابے نے ”برطانیہ اور عرب اسرائیل تنازعہ “ کتاب تخلیق کی ہے ۔اور بھی بہت ساری کتابیں اسرائیل کے نئے مورخین نے شائع کی ہیں۔ اسرائیل کے ان مورخین کا نقطہ¿ نظر مختصر الفاظ میں یہ کہہ کر بیان کیا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ فلسطین کی تاریخ اورتشخص رکھنے والے فلسطینیوں کےساتھ مکالمے کے علمبردار ہیں۔ یہ لوگ فلسطینی اسرائیلی کشمکش ختم کرانے کا علم بلند کئے ہوئے ہےں۔ یہ کام سیاسی سطح پر انجام نہیں دیا جاسکتا۔ اس کےلئے تاریخ کی تفصیلات پر ازسر نو سمجھوتہ کرنا ہوگا۔ یہ ماننا ہوگا کہ اسرائیل کے قیام کے باعث ہی فلسطینی المیے سے دوچار ہوئے اور 1948ءکی کل فلسطینی آبادی کے 61فیصدکو وطن سے دربدری کی خاک چھاننے پر مجبور کیا گیا۔
اسرائیل کے نئے مورخین نے بڑے اہم نکات دیئے ہیں۔ مختصراً© کہا جاسکتا ہے کہ ان لوگوں نے 1948ءکی جنگ سے متعلق اسرائیل کی سرکاری کہانی کو سوال کے دائرے میں لاکھڑا کیا ہے۔ علاوہ ازیں یورپی ممالک میں یہودیو ںکی بیخ کنی سے متعلق صہیونی قائدین کے موقف کو صحیح تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسرائیل کی تعمیر کے منصوبے اور یہودی تشخص سے متعلق بنیادوں پر بھی گفتگو کی ہے۔
یہ درست ہے کہ بعض نئے مورخین نے فلسطینی المیے کی تاریخی کہانی پر اسرائیلی ریکارڈ کے بند دریچے کھولنے کی کوشش کی تاہم انہوں نے فلسطینی پناہ گزینوں کے مسئلے کی ذمہ داری صہیونی گروہوں اور برطانیہ پر نہیں ڈالی۔ اسرائیلی مورخین نے فلسطینی عوام کے علاقوں کی ملکیت یہودی ایجنسی اوراسرائیل کو منتقل کرنے کے سلسلے میں برطانیہ کے کردار کو بھی ہائی لائٹ نہیں کیا۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ 1948ءسے لیکر تاحال اسرائیلی اور صہیونی ادارے ایک خاص کہانی کو آگے بڑھا رہے ہیں۔اس ضمن میں گرین لائن کے اندر عرب اقلیت کی طرف توجہ مبذول کرائی جاسکتی ہے۔ 2017ءسے 16لاکھ عرب اسرائیل کی مسلمہ شناخت سے منافی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ عرب اقلیت کو عسکری جبر کے باعث اسرائیلی شہریت حاصل ہے تاہم اسرائیل کے مختلف ادارے عرب اقلیت پر اسرائیلی عرب کی اصطلاح استعمال کرتے چلے جارہے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭