Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چین ، سعودی عرب میں کارخانے کھولنے کا خواہشمند کیوں؟

فہد عریشی ۔ الوطن
چین کے بارے میں سب لوگ جانتے ہیں کہ وہاں صنعتی پیداوار کی لاگت بہت کم ہوتی ہے۔ چین زبردست تربیت یافتہ افرادی قوت کا مالک ملک ہے۔ محنتانے معمولی ہیں۔ امریکہ اسی خوبی کے پیش نظر اپنے کارخانے چین منتقل کررہا ہے۔ دنیا بھر کی کمپنیاں اسی چکر میں چینی مارکیٹ کا رخ کررہی ہیں۔امریکہ اور یورپ کی بڑی بڑی کمپنیاں چین منتقل ہورہی ہیں۔ انہوں نے گزشتہ برسوں کے دوران اس اقدام کی بدولت خوب سے خوب منافع کمایا۔ کم سے کم لاگت کے بدلے شاندار فوائد حاصل کئے۔ چین غربت اور افلاس کی منزل سے نکل کر خوشحالی ، پیشہ ورانہ اور اقتصادی کفالت کے دور میں داخل ہوگیا۔چین اب دوسری بڑی عالمی اقتصادی طاقت اور زرمبادلہ کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا ملک اور فوجیوں کی تعداد کے حوالے سے سب سے بڑی فوج کا مالک اور دنیا میں سب سے زیادہ برآمدات والا ملک بن چکا ہے۔
چین نے یہ سب کچھ حاصل کیا۔ اس نے اس کی قیمت ماحولیاتی آلودگی کی آفت کو گلے لگانے کی صورت میں چکائی۔ میں نے 2014ءمیں پہلی بار بیجنگ کا دورہ کیا تھا۔ وہاں 3دن تک سورج دیکھنا نصیب نہیں ہوا تھا۔ طلبائ، مرد و خواتین سڑکوں پر صبح سویرے ماسک لگائے نظر آتے تھے۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کیونکہ وہاں آلودگی کی شرح بہت زیادہ بڑھی ہوئی تھی۔ اس بحران سے نجات حاصل کرنے کیلئے چینی کارخانوں پر پابندیوں کا دباﺅ شروع کردیاگیا۔ ایک چینی جج نے واضح کیا کہ ماحولیاتی آلودگی اور ماحولیاتی جرائم کے مقدمات کی سماعت کیلئے عدالتوں کا دائرہ پھیلایا جائیگا۔ چینی پارلیمنٹ نے پہلی بار ماحولیاتی تحفظ کیلئے فیکٹریوں پر خصوصی ٹیکس بھی عائد کردیا ہے۔ سال رواں کے شروع سے اس پر عمل درآمد ہونے لگا ہے۔ اس ٹیکس نے چینی کارخانوں کو عارضی یا دائمی شکل میں معطل کر ڈالا ہے۔ گزشتہ عشروں کے دوران چینی فیکٹریاں آزادانہ کام کررہی تھیں ،اب پابند ہوگئی ہیں۔ 6ماہ قبل چین کے ایک شہر پہنچا تو اس وقت پلاسٹک اور اسکی ری سائیکلنگ فیکٹری کے چینی مالک اور ایک سعودی سرمایہ کار کے درمیان گفت و شنید چل رہی تھی۔ چینی سرمایہ کار نے بات چیت کے ذریعے اپنی فیکٹری چین سے جازان منتقل کرنے کا معاہدہ کرلیا۔ سعودی سرمایہ کار راضی ہوگیا۔ یہ خطرے کا الارم ہے۔ چینی سرمایہ کار اس معاہدے پر بیحد خوش تھا۔ خوشی کا پہلو یہ تھا کہ وہ جازان میں کم لاگت پر پلاسٹک کی ری سائیکلنگ کرسکے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ بڑے خطرے کی علامت ہے۔ اگر سعودی عرب کے متعلقہ ادارے ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے ابھی بیدار نہ ہوئے تو وہ دن دورنہیں جب سعودی شہریوں اور یہاں مقیم غیر ملکیوں کو ماحولیاتی آلودگی سے بچاﺅ کیلئے ماسک پہن کر نکلنا پڑیگا۔
٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: