Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیا پاکستان !

***محمد مبشر انوار***
یہ 1947کی بات ہے، جب متحدہ ہندوستان کے سینے سے ایک نیا وطن،پاکستان معرض وجود میں آیا تھااور بر صغیر کے مسلمانوں نے قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں یہ عہد کیا تھا کہ اس نو آموز ریاست کو اسلام کی تجربہ گاہ بنا کر دم لیں گے مگر شو مئی قسمت،ہر گزرتے دن کے ساتھ اس ریاست کو فقط بونے قسم کے رہنماؤں نے لوٹا ،اس کی سمت کو کھوٹا کیا،شہریوں کو ڈگڈی کی مختلف آوازوں پر نچایا،سیاست کی آڑ میں آمریت کا ننگا رقص کیا،آمریت کے سائے میں مقید جمہوریت کا ڈھول پیٹا گیالیکن جمہوری اصولوں سے بننے والے اس ملک میں جمہوریت ،صرف جمہوریت اور صرف جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا گیااورنہ ہی جمہورکو سنبھلنے دیا گیا۔آمریت زدہ معاشرے میں جو روئیے ،رد عمل ممکن ہو سکتے ہیں،اس وقت پاکستانی معاشرہ کلیتاً ان کا شکار نظر آ رہا ہے،ہر طرف تنگ نظری،غاصبانہ سوچ،جس کی لاٹھی اس کی بھینس،حق تلفی،مذہبی انتہا پسندی،فرقہ واریت،لسانیت غرض کون سا ایسا منفی رویہ ہے جو پاکستان کے رہنماؤں نے اس قوم کو تحفتاً یا ارادتاً فراہم نہیں کیا؟ملک کا آدھا حصہ گنوانے کے باوجود ،ان خود ساختہ عوامی رہنماؤں نے کیا سبق سیکھا ؟متحدہ پاکستان میں ون یونٹ جیسی ،پہاڑ جیسی غلطی کرنے کے باوجود،موجودہ پاکستان میں بعینہ وہی صورتحال جانتے بوجھتے ہوئے نہ صرف پیدا کی گئی ہے بلکہ اس پر بضد رہنے کی روش پر ابھی تک قائم ہیں،جو مسلسل چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی کو بڑھا رہی ہے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی بلکہ الٹا اثر یہ ہوا ہے کہ سیاسی قائدین نے بعینہ مافیا کی طرح اپنے اپنے علاقے بانٹ کر جمہوری روایات کو عملاً دفن کر دیا ہے۔ریاستی مشینری ،اب ریاست سے وفاداری کی بجائے شاہی خاندانوں کی ذاتی غلامی کو ترجیح دیتی ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ریاستی مشینری کی اکثریت اس تصور سے ہی نا آشنا ہے کہ ریاست اور شاہی خاندان میں فرق کیا ہے،جو چند ایک سر پھرے اس تصور کو جانتے ہیں ان کا حشر محمد علی نیکو کارا یا شارق کمال جیسا ہوتا ہے،لہذا باقی ریاستی مشینری بغیر چوں چرا کئے،شاہی خاندانوں کے سامنے سر تسلیم خم کئے رکھتی ہے۔ 
بھٹو کے دور حکومت میں عوام کو یہ شعور ضرور ملا کہ وہ خم ٹھونک کر ریاستی مشینری سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے تھے ،جس کا خمیازہ پیپلز پارٹی نے آنے والے وقتوں میں بری طرح بھگتا کہ ریاستی مشینری عوامی غیظ و غضب سے بچنے کی خاطر ہمیشہ پیپلز پارٹی کے آڑے آئی،ماسوائے گزشتہ دور حکومت میں جہاں آصف علی زرداری نے اور بہت سے ’’مفاہمتیں ‘‘ کی وہیں ریاستی مشینری کو بھی نوازنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ایک منتخب حکومت اپنی حکومتی مدت ،پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ مکمل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اس کامیابی میں مگر ریاست کا کتنا نقصان ہوا،اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ آصف علی زرداری سے قبل تک پیپلز پارٹی ہی وہ عوامی سیاسی جماعت تھی جو عوام کے حقوق کی بات کرتی تھی مگر گزشتہ دور حکومت میں اس نے بھی اپنی حریف مسلم لیگ ن کی پالیسی اپنا لی،اور عوام کے حقوق مزید سلب ہوتے گئے۔ اس پس منظر میں تحریک انصاف’’امید کی کرن‘‘ بن کر نمودار ہوئی اور مسلسل حزب اختلاف کا کردار ادا کرتی رہی ۔ عوام کا وہ شعور جو 70کی دہائی میں ریاستی مشینری کو چیلنج کرنے میں بیدار ہوا تھا،آج اس نہج پر آ چکا ہے کہ عوامی نمائندگان بلا تفریق ،شہری و دیہی ،کیلئے درد سر بنا نظر آتا ہے،کسی سردار،وڈیرے یا صنعت کار کیلئے عوام کا سامنا کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہو چکا ہے کہ عوام کے تند و تیز  جملے اور سوالات کا جواب دینا ،اپنی کارکردگی کا دفاع کرنا سابقہ موروثی نمائندگان کیلئے تقریباًنا ممکن ہو چکا ہے اور واضح نظر آ رہا ہے کہ ان منتخب حکومتوں کے مدت پوری کرنے کے بعد انہیں کسی قسم کی روایتی ہمدردی کا ووٹ میسر نہیں ۔ ایسے میں امید تھی کہ تحریک انصاف بیدار مغزی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے نظریاتی کارکنان کو ٹکٹ جاری کرے گی لیکن یہ امید اس وقت ہوا ہو گئی جب تحریک انصاف کے چیئر مین ایک طرف اپنے ’’روایتی سیاستدان ‘‘مشیروں کے سامنے سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہو گئے اور پٹے ہوئے مہروں کو ہی دوبارہ ٹکٹ دیدئیے گئے تو دوسری طرف ان کا مذہبی میلان اس امر کی طرف اشارہ کرتا نظر آیا کہ وہ بھی اقتدار کی خاطر کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ روایتی سیاستدانوں نے تحریک انصاف میں بھی اپنی روایتی سیاست کو زندہ رکھا ہوا ہے اور کسی بھی طرح سٹیٹس کو ،کو قائم رکھنے کے لئے ہاتھ پیر مار رہے ہیں،مختلف دھڑے بندیوں کا شکار ،ناراض کارکنان کی موجودگی میں تحریک انصاف کیا کارکردگی دکھا سکے گی،کوئی اچنبھے کی بات نہیں بالخصوص اس پس منظر میں جب عمران خود واشگاف الفاظ میں کہہ چکے ہوں کہ وہ اقتدار میں آ کر ان ملازمین/ریاستی مشینری کے ارکان کو پھانسی پر لٹکائیں گے ، انہیں نوکریوں سے نکالیں گے یا ان سے کارکنوں پر ظلم کرنے کا حساب لیں گے،کیسے ریاستی مشینری ان کی ہمنوا ہو سکتی ہے(ریاستی مشینری کو اصولاً غیر جانبدار رہنا چاہئے اور صرف ریاست کی وفاداررہنا چاہئے)۔ عمران کے ایسے بیانات سے واضح ہے کہ ان کی سیاسی بصیرت کس حد تک ہے اور وہ کتنا پاکستانی سیاست کو سمجھ سکے ہیں، در پردہ ان کی روایتی سیاسی ٹیم ہے،جو اپنے کھیل میں مصروف عمل ہے،دیکھتے ہیں اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ 
عمران کا ایک خاص مزاج ہے کہ وہ جس چیز کے پیچھے لگ جائے اس میں ’’جیت‘‘ہی اس کا مقصد ہوتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اس نے ماضی میں اپنے ہر خواب کی تعبیر حاصل بھی کی مگر وہ خواب ایک محدود دائرے کے اندر محدود لوگوں کی مدد سے حاصل کئے گئے ۔دوسری اہم بات کہ اس وقت تک عمران کا جوش و جذبہ اور عمر اسے اپنے مائنڈ سیٹ اور جہد مسلسل سے مقصدکے حصول تک پر امید رکھتی لیکن سیاست کے اصول (بالخصوص پاکستانی سیاست کے)نرالے ہیں کہ یہاں عمران اپنی بھر پور کوششوں اورطویل جدوجہد کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پایا۔ اس وقت ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے عمران کی تمام تر امیدیں دم توڑ رہی ہوں اور وہ کسی بھی صورت اپنی زندگی کا یہ آخری معرکہ بھی جیتنا چاہتا ہے اسی لئے وہ اپنی ساری روشن خیالی ،اعلی تعلیم ایک طرف رکھتے ہوئے برصغیر کے روایتی مذہبی ٹوٹکوں کا سہارا بھی گنوانا نہیں چاہتااور ہر وہ عمل بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کرتا جا رہا ہے،جو اس کی مذہبی رہنما،شریک حیات اس سے کروانا چاہتی ہیں۔ حصول اقتدار کیلئے ایسے مذہبی ٹوٹکے بے نظیر جیسی پڑھی لکھی خاتون بھی کرتی رہی تو میاں نواز شریف بھی اس میں کبھی پیچھے نہیں رہے۔آصف علی زرداری صدارتی محل میں یہی کچھ کرتے نظر آئے مگر ایک فرق جو ان سب میں نمایاں رہا کہ ان میں سے کسی بھی رہنما کی ایسی حرکتیں نہ تو کیمرے کی زینت بنی اور نہ ہی عوامی سطح پر ان کی ایسی تشہیر ہوئی۔ عمران کی صورتحال مگر انتہائی مختلف ہو چکی ہے کہ وہ جس جگہ بھی جائیں ،کچھ بھی کریں لمحوں میں ان کا عمل دنیا بھر میں وائرل ہو جاتا ہے۔ 
حیرت مجھے اس بات پر ہوتی ہے کہ عمران کے یہ کیسے چاہنے والے ہیں جو نادان دوست کا کردار ادا کرتے ہوئے اس کی ایسی کسی بھی کارگزاری کو لمحوں میں وائرل کر دیتے ہیں؟اللہ جانے کہ پِٹے ہوئے مہروں کو ٹکٹ دینے کے بعد ،اب روایتی مذہبی ٹوٹکے اختیار کر کے کس نئے پاکستان کی بنیاد رکھی جائیگی!
 

شیئر: