بات کا آغاز کہاں سے کروں؟ عجب کنفیوژن ہے۔ چلیں آج سے قصے کو بیان کرتے طلوع اسلام کے ایام تک جاتے ہیں۔ کرہ ارض کی تاریخ میں 20ویںصدی کے دوران اٹھنے والے خون آشام ہنگامے ہمیشہ ایک حوالہ رہیں گے۔ 2 عالمی جنگیں اور پھر کمیونزم کا عروج و زوال انسانی خون کی بے قدری ، سرد جنگ ، بحروبر کو 2 حصوں میں تقسیم کرتا خط متارکہ ۔ ۔ ۔
ان برسوں میں تاریخ کے صفحات پر ابھر آنے والے صرف 2 نام ہی سدا زندہ رہیں گے۔ امریکی صدر رونالڈ ریگن اور برطانوی وزیراعظم آئرن لیڈی مارگریٹ تھیچر ۔ ۔ ۔ آدھے کرہ ارض کے مالک لیونڈ برزنیف کا جس طرح پنجہ مروڑ کر ان 2 شخصیتوں نے کمیونسٹ ممالک کو آزادی دلائی تاریخ کا ایک یادگار باب ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ قابل ستائش ہم لوگوں کے لیے ان دونوں کے طرز ہائے زندگی ہیں۔ امریکہ کے 40ویں صدر رونالڈ ریگن نے اقتدار میں آنے سے بہت عرصے قبل اپنے لیے 688 ایکڑ رقبے پر مشتمل Rancho del Cielo کے نام سے معروف ایک مزرعہ کیلی فورنیا میں خرید لیا تھا۔ اس وقت وہ کیلی فورنیا کے گورنر تھے۔ یہ 1974ء کی بات ہے جب گورنر کے طور پر ان کا دوسرا عرصہ اقتدار اختتام کے قریب تھا۔ اس وقت انہوں نے اس قطعہ اراضی کے لیے 5 لاکھ 27 ہزار ڈالر ادا کئے تھے۔ صدر منتخب ہونے کے بعد وہ وہائٹ ہاؤس میں منتقل ہوگئے تاہم اس دوران میں انہوں نے متعدد مرتبہ دوست ممالک کے راہنماؤں کو اپنے اس مزرعہ میں مدعو کیا۔ برطانوی ملکہ ا لزبتھ ثانی ، ان کے شوہر شہزادہ فلپ اور روسی صدر میخائل گوربا چوف کو صدر ریگن کی قیام گاہ پر دی گئی صیافتیں ہمیشہ یاد رہیں۔ اس دوران میں صدر ریگن نے لاس اینجلس کی ایک چھوٹے سے قصبے بیل ایر میں بھی ایک مکان خریدا اور یہی 2 رہائش گاہیں کرہ ارض کے طاقتور ترین صدر کی ذاتی ملکیت میں رہیں۔ جب ریگن آخر ہفتہ کی تعطیل منانے اپنے مزرعہ پر جاتے تو وہائٹ ہاؤس سے ان کا عملہ ان کے ہمراہ ہوتا۔ حکومتی مصروفیات حسب معمول چلتی رہتیں اور صدر ریگن اپنے پسندیدہ گھوڑے پر سہ پہر کو سواری بھی کرتے۔ اپنے باغ میں سبزیاں بھی اُگاتے اور باڑ بھی تراشتے۔ اہلیہ نینسی ریگن باورچی خانے میں اور گھر کی آرائش میں مصروف رہتیں۔ اسی مزرعہ سے صدر ریگن نے کرہ ارض کے ذرائع ابلاغ کو مصروف رکھا۔ افغانستان کی جنگ کی نگرانی کی اور 20ویں صدی کے فتنے کمیونزم کی ناکہ بندی کی۔ 20 جنوری 1981ء کو منصب صدارت سنبھالنے والے رونالڈ ریگن جب 20 جنوری 1989ء کو نئے صدر جارج بش کے حوالے وہائٹ ہاؤس کرکے باہر آئے تو ہیلی کاپٹر انہیں سیدھا ان کے ذاتی مزرعہ رانچو ڈیل سئیلو میں لے گیا۔ اس کے علاوہ ان کی ایک مختصر سی رہائش گاہ بیل ایر میں تھی۔ عمر کے آخری سالوں میں ان پر نسیان کا حملہ ہوگیا اور رفتہ رفتہ وہ واقعات و شخصیات کو فراموش کرتے گئے۔ جسمانی طور پر مضبوط ہونے کے باوجود ذہنی طور پر وہ خود فراموش ہوتے گئے۔ 5 جون 2004ء کو جب ریاستہائے متحدہ کے 40 ویں صدر رونالڈ ریگن نے آخری سانس لی تو ان کا ذہن صرف اہلیہ نینسی ریگن کی پہچان رکھتا تھا باقی سب کچھ نسیان کا دیو کھا گیا تھا۔ زبان حرکت سے انکاری تھی ۔ ترکے میں ایک بیوہ ، ایک مختصر سا گھر اور ایک مزرعہ تھا لیکن کرہ ارض کے عظیم راہنماؤں میں نام لکھا جاچکا تھا۔
اب مارگریٹ تھیچر ! مملکت متحدہ برطانیہ کے عظیم وزرائے اعظم میں سے ایک ! 4 مئی1979ء سے 28 نومبر 1990ء تک اپنے ملک کی وزیراعظم رہنے والی مارگریٹ ہلڈا تھیچر کا نام ہمیشہ رشک اور احترام سے لیا جائے گا۔ برطانیہ پر 20 صدی میں طویل ترین دورانیے کی حکومت کرنے والی تھیچر 1975ء سے 1990ء تک اپنی سیاسی جماعت کنزرویٹو کی بھی راہنما رہی تھیں۔ بلا کی معاملہ فہم اور ذہین تھیں۔ امریکی صدر رونالڈ ریگن کی معیت میں انہوں نے سوویت اتحاد کی شکست و ریخت میں مرکزی کردار ادا کیا۔ ان کے مصمم ارادے اور ناقابل شکست سیاسی عقائد کو دیکھ کر ایک روسی صحافی نے انہیں ’’آئرن لیڈی‘‘ کہا اور پھر دنیا بھر میں وہ اسی نام سے معروف ہوگئیں۔ 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ میں دی گئی حکومتی قیام گاہ میں بین الاقوامی راہنماؤں کا استقبال کرتیں ، اپنے ہاتھ سے چائے بناکر انہیں پلاتیں اور ان سے اہم ترین امور پر وہیں بیٹھے بیٹھے بات کرتیں۔ اس حکومتی رہائش گاہ کے علاوہ ان کی ملکیت میں ذاتی صرف ایک قیام گاہ تھی، چیسٹر اسکوائر پر کھڑی اس عمارت کی چوتھی منزل پر بنا ایک فلیٹ۔ چنانچہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ حکومتی قیام گاہ 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ سے اپنے ذاتی فلیٹ میں منتقل ہوگئیں۔پھر وقت اور عمر نے اپنا خراج لینا شروع کیا۔ پے در پے فالج کے حملے ہوئے۔ ذہن درماندگی کا شکار ہوگیا۔ بدن میںناتوانی آئی۔ گھر میں سیڑھیاں چڑھنا ناممکن ہوگیا۔ چنانچہ احباب کے مشورے پر رٹز ہوٹل میں منتقل ہوگئیں ۔ حکومت کی طرف سے مہیا کی گئی ایک نرس نگران رہتی تھی۔ نسیان نے اپنا پنجہ مزید گہرا کیا تو یاد داشت اور زبان ضعف کا شکار ہوگئیں۔ آخری ایام میں ملاقاتیوں سے گریز تھا۔ 8 اپریل 2013ء کو مملکت متحدہ برطانیہ کی 87 سالہ آئرن لیڈی وزیراعظم لیڈی مارگریٹ تھیچر نے ایک ہوٹل کے سویٹ میں آخری سانس لی تو پاس ایک ڈاکٹر اور نگران نرس تھے۔ دونوں جزواں بچے کیرل اور سرمارک وطن سے باہر تھے کہ وہ وہیں ملازمت کرتے تھے۔ ترکے میں لیڈی تھیچر نے ایک 4 منزلہ مکان چھوڑا اور ترکے میں 80 کی دہائی کی تاریخ کو اپنا درخشاں نام دیا۔
تو اب ہم اپنی ہی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں جب طلوع اسلام کے فورا بعد ہمارے مجاہدین کے گھوڑوں کے سم کرہ ارض پر خاک اڑاتے سلطنتوں کو زیر نگیں کرتے تھے۔ تب ہمارے راہنما کیسے تھے؟ ترکے میں کیا چھوڑ گئے؟ خالد بن ولید ؓنے جب اپنی جان جان آفرین کے سپرد کی تو ایک غلام ، ایک گھوڑا اور ایک تلوار چھوڑ گئے۔خلیفہ المسلمین عمر ابن الخطابؓ نے ایک کھردرا لباس اور پانچ دینار ترکے میں چھوڑے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنی جیب سے سب کچھ خیرات میں دے دیا تھاچنانچہ ان کی تدفین کے لیے رقم اکٹھی کی گئی جبکہ قبر کے لیے اینٹیں بنانے کے لیے تنکے اور لکڑی بھی مانگی گئی۔ امیر المومنین ابوبکر صدیقؓ نے ایک غلام ، ایک اونٹ اور بدن کے لباس کا ترکہ چھوڑا جو ان کی وصیت کے مطابق اگلے خلیفہ عمر ابن الخطابؓ کے حوالے کردیا گیا۔
کیا درخشندگی تھی ! ۔ ۔ ۔ کیا روشن راہیں تھیں! کیا راہبر تھے !
اب کیا تاریکی ہے ! کیا اندھے راستے ہیں ! کیا راہبران راہ گم کردہ ہیں !
وطن سے باہر کھربوں کے خزانے ، اربوں کے محلات ، یورپی قومیتیں !
اور وطن میں نادار انسان اور جانور ایک ہی تالاب پر سرجھکائے پانی سے ہونٹ لگائے ، دریا سرابوں کی داستانیں کہتے ، ابن آدم رات کی تاریکی میں روشنیوں کو ترستا ! !