Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تارکین فیس.... حقیقت میں کون ادا کررہا ہے؟

محمد الثبیتی ۔ المدینہ
سعودی حکومت نے لیبر مارکیٹ میں مصروف عمل تارکین پر پہلی بار فیسیں مقرر کی ہیں۔اس پر موافق مخالف تاثرات سامنے آرہے ہیں۔ میرے نقطہ نظر سے موافقت اور مخالفت کے 2 بنیادی سبب ہیں۔ پہلا سبب یہ ہے کہ ایک بڑا طبقہ تارکین وطن پر فیس عائد کرنے کے فیصلے کو مثبت شکل میں دیکھ رہا ہے۔ اسکی سوچ یہ ہے کہ تارکین وطن پر فیس عائد کرنے سے غیر ملکی کارکنان کی بڑھتی ہوئی تعداد کو قابو کیا جاسکے گا۔ ہو تو یہ رہا ہے کہ سعودی عرب بین الاقوامی ٹریننگ مارکیٹ بن چکا ہے۔ اس حوالے سے دنیا بھر میں سعود ی عرب پہلے نمبر پر ہے۔ اس سے زیادہ تر فائدہ اٹھانے والے غیر ملکی ہیں، سعودی نہیں۔ سعودیوں کو تربیتی اسکیموں سے کوئی فائدہ نہیں ہورہا ۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو تارکین وطن پر فیس عائد کرنے سے نالاں ہے۔ اس کی سوچ یہ ہے کہ اس عمل کے باعث مقامی شہریوں کو بھاری نقصان ہورہا ہے۔ مثال کے طور پر اگر فیس عائد کرنے سے قبل انہیں سالانہ ایک لاکھ ریال کا منافع ہورہا تھا تو اب انہیں زیادہ سے زیادہ 40فیصد تک ہی منافع ہوگا۔ 
یہ سب کچھ مارکیٹ میں ہورہا ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ سرکاری اداروں کی جانب سے جن لوگوں پر اضافی فیس عائد کی گئی ہے وہ منظر نامے سے اوجھل ہیں۔ ہو یہ رہا ہے کہ بہت سارے غیر ملکی سعودیوں کے نام سے کاروبار کررہے تھے۔ سعودی شہری انہیں آزاد چھوڑے ہوئے تھے۔ وہ یہ دیکھنے کی زحمت تک گوارہ نہیں کررہے تھے کہ انکے زیر کفالت افراد کیا کاروبار کررہے ہیں۔ آیا وہ قانوناً درست ہے یا ممنوع ہے۔ وہ کتنا کما رہے ہیں، کیسے کما رہے ہیں؟ عام سعودی شہری اس چکر میں پڑنے کے بجائے صرف اس بات میں دلچسپی لے رہے تھے کہ انہیں مطلوبہ رقم مل رہی ہے اور ملتی رہے۔ حکومت نے نئی فیسیں عائد کرکے اس قسم کے لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا۔ اسکا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ جو غیر ملکی کارکن معمولی درجے کے کام کررہے تھے یا اوسط درجے کی سرگرمیوں سے جڑے ہوئے تھے وہ نئی فیسوں کے زیر اثر مملکت کو خیر باد کہیں گے اور انکی جگہ سعودی شہری وہ کام بآسانی انجام دے سکیں گے۔
یہ درست ہے کہ سعودی حکومت نے لیبر مارکیٹ کے ڈھانچے کو سعودائزیشن کے حوالے سے موزوں بنانے کیلئے قاعدے ضابطے مقرر کئے اور مارکیٹ سے ضرورت سے زیادہ کارکنان کو نکالنے کی کامیاب اسکیمیں نافذ کیں البتہ زمینی منظر نامہ یہ بتا رہا ہے کہ عام صارفین اس حکمت عملی کے منفی نتائج برداشت کرینگے۔ وجہ یہ ہے کہ وزارت تجارت و سرمایہ کاری اورمیونسپلٹیوں کی جانب سے بعض پیشوں کی خد مات کے نرخ مقرر نہ ہونے کے باعث کارکن محنتانے بڑھا رہے ہیں۔ تحفظ صارفین انجمن کی جانب سے کارکنان کی نگرانی مطلوبہ شکل میں نہیں ہورہی۔ اس بات کا کوئی اہتمام نہیں کیا جارہا کہ کارکن مقررہ محنتانے کے مطابق کام کررہے ہیں یا اسے نظر انداز کئے ہوئے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: