Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں آباد شیعہ محب وطن ہیں،ایران سے انکا کوئی تعلق نہیں،مذہبی رہنما

 دمام .... سعودی عرب کے معروف شیعہ عالم ڈاکٹر شیخ اکرم البلادی نے واضح کیا ہے کہ علی السلمان کا المسورہ کے حملوں میں زخمی ہونے والے سیکیورٹی اہلکاروں کی عیادت کے لئے جانا اس بات کا روشن ثبوت ہے کہ سعودی عرب میں آباد شیعہ محب وطن ہیں۔ ایران سے انکا کوئی رشتہ ناتہ نہیں اور وہ دہشتگردوں کے مخالف ہیں۔مملکت میں آباد شیعہ علماءدہشتگرد مجرموں کے خلاف ہیں۔ تمام انسانوں کے ساتھ محبت ، رحمدلی اور پرامن بقائے باہم کے علمبردار ہیں۔سعودی ہموطن ہمارے ہم مذہب بھی ہیں اور ہمارے عزیز اور رشتہ دار بھی انکے ساتھ پیار محبت کے ساتھ رہنا ہماری اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب پیغمبر وں کی سرزمین تہذیب و تمدن کی آماجگاہ اور علوم و افکار کا سرچشمہ ہے۔ فرقہ وارانہ اختلافات افکار و نظریات میں تنوع کا فطری نتیجہ ہیں۔ تمام فرقوں کے ذی ہوش افراد کا فرض ہے کہ وہ پرامن بقائے باہم کی قدرو ں کے فروغ کی جدوجہد کریں او رکشیدہ ماحول برپا کرنے والے مٹھی بھر افراد کی ناکہ بندی کریں۔البلادی نے یہ بھی کہا کہ پرامن بقائے باہم ، ایک دوسرے سے ملنا، محبت کے رشتے استوار کرنا ، وطن عزیز کے فرزندوں کا شیوہ تھا، ہے اوررہیگا۔ فرقہ وارانہ اختلاف کے باوجود ہم سب کا مذہب ایک ہے۔ بانی مملکت شاہ عبدالعزیز شیعہ علماءسے تعلق رکھتے تھے۔ ریاست کے قائد کی فرمانبرداری ، قومی اور مذہبی فریضہ ہے۔ البلادی نے العوامیہ میں قانون کے باغیوں کو اسلحہ پھینکنے، تشدد کی زبان ترک کرنے اور سرکار کی آغوش میں واپس آجانے کا مطالبہ کیا۔ البلادی سے دریافت کیا گیا کہ کیا مجرمانہ سرگرمیوں کیخلاف مذمت کا بیان جاری کردینا مجرمانہ سرگرمیوں کوطشت از بام کردینے کیلئے کافی ہے۔ انہوں نے کہاکہ بیان کی اہمیت کا پہلو یہ ہے کہ وہ جاری کس نے کیا ہے۔ البلادی سے پوچھا گیا کہ شیعہ علماء فرقہ واریت کے سدباب کیلئے کیا کررہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اپنی استطاعت اور بساط کے مطابق اپنے دائرے میں رہ کر کام کررہا ہے۔ تمام شیعہ ہوشمند افراد ہر طرح کے فرقہ وارانہ امراض کو مسترد کرتے ہیں ۔ پرامن ماحول برپا کرنے کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔ کشیدگی کو کنٹرول کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ کام کسی ایک فرقے تک محدود نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہر فرقے کے ہر سمجھدار انسان کو پرامن بقائے باہم کی اقدار کے فروغ کیلئے کام کرنا چاہئے۔

شیئر: