پاکستان میں انتخابی پارہ چڑھتا ہی جارہا ہے
نگراں حکومت کی کوتاہی سے انتخابات کی شفافیت متاثر ہوتی، پنجاب میں مسلم لیگ کی قوت کو کمزور کرنے سے نئی جماعتوں کو انتخابی میدان میں آنے کا موقع ملا
سید شکیل احمد
کہہ رہا ہے زما نہ کہ پاکستان میں جوں جو ں دن نزدیک آرہے انتخابی بخار بھی چڑھتاجا رہا ہے بلکہ یو ں کہنا چاہیے کہ انتخابی پا رہ چڑھتا ہی جا رہا ہے تاہم ایک بات ماننا پڑے گی کہ پا کستان کی تاریخ میں 2018ء کی انتخابی فضا ما ضی کے تما م انتخابات سے یکسر مختلف ہے۔ ماضی میںدونظرئیے کو انتخابات کا نظریہ بنایا جا تا تھا یا پھر فکر ی نظریہ کا اچھا ل رہا کہ پا کستان کو سیکو لر اسٹیٹ ہو نا چاہئیے کہ مذہبی پھر دائیں بائیں کی انتخابی جنگ بھی ہوئی ۔ اس کے ساتھ علا قائی خود مختاری جس کو صوبائی خود مختاری کانظریہ کہا گیا، اس کی مہم جو ئی بھی ہوئی یعنی مختلف نظریا ت پنپتے رہے ، مگر اب 4دن بعد جو انتخابات ہو نے جارہے ہیں اس بارے میں حتمی کوئی رائے قائم نہیں کی جا سکتی بلکہ سچ تو یہ ہے کہ انتخابات مختلف افکا ر اور پریشانیو ں میں بٹ کر رہ گیا ہے جبکہ عوام کو ان سب سے زیا دہ جمہوریت عزیز نظرآرہی ہے۔ عوامی حقوق اہمیت حاصل کر تے جارہے ہیں اور اپنے معاشی واقتصادی مسائل کیلئے انصاف کی طلب بڑ ھ رہی ہے۔ اس پس منظر میں مسلم لیگ ن جبر کا شکا ر ہونے کے بارے میں اپنی مظلو میت کو انتخابی اسٹنٹ بنائے ہو ئے ہے ۔تحریک انصاف جو غریب کو میرٹ ، صلا حیتو ں میں اور سماجی ومعاشی انصاف فراہم کرنے ، صاف ستھرا معاشرہ کے قیا م جیسے خوش کن جیسے عزم وحوصلہ کی اٹھان لے کر مید ان سیا ست میںآئی تھی لگتا ہے کہ وہ اب اس تما م سے دست بردار ہو چکی ہے اور اس کو اس وقت اقتدار کی چاٹ پڑی ہے ۔
وفاق میں کو ن حکومت بنا ئے ، اس بارے میں اب کوئی حتمی ر ائے نہیں دی جا سکتی کیو نکہ پاکستان میں کا فی ساری سیا سی جماعتیں ہیں مگر اس وقت قومی سطح پر انتخابی دنگل ایسا لگ رہا ہے کہ وہ صرف مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیا ن ہی ہے جبکہ ملک کی تیسری بڑی پارٹی نہ صرف سیاست بلکہ انتخابی سیا ست کی ایک ایسی کھلا ڑی ہے جو ان2کے بیچ معرکے سے صرف لطف اندوز نہیں ہو رہی بلکہ سیا سی پا ور کو اپنی مٹھی میں جکڑ ے ہوے ہے ۔مسلم لیگ ن کا نظریۂ انتخابات یہ نہیں کہ اس میدان میں ا س کا مقابلہ کسی سیا سی جما عت یا سیا سی نظرئیے سے ہے بلکہ وہ یہ تاثر ابھا رنے میں کا میا ب ہو ئی ہے کہ مقابلہ لا ڈے کے لا ڈلو ں سے ہے ۔بہر حال ایسی انتخابی فضا میں اہل محب وطن کیلئے بہت گہر ی فکر مندی پائی جا تی ہے ۔ ما ضی میں جتنے بھی انتخابات ہوئے اس میں دھاندلی وغیر ہ کے الزامات تو لگے مگر یہ الزاما ت اس حکومت پر نہیں لگے جو انتخابات کے انعقاد کی ذمہ داری نبھا رہی تھی بلکہ سیا سی جماعتوں پر عائد ہو ئے جیسا کہ 2013ء کے انتخابات میں دھا ندلی کا الزام عمر ان خان پر نگران حکومت کے خلا ف تحریک لے کر نہیں اٹھے بلکہ مسلم لیگ ن کو مور دالزام ٹھہر ایا۔ـ اس وقت بعض سرکاری اداروں پر براہ راست انگلیا ں اٹھ رہی ہیں ۔ مسلم لیگ ن یہ تاثر دینے میں کا میا ب بھی رہی ہے ۔ جن اداروں کے بارے میں اشارے بازی کی جارہی ہے اُس کے بارے میں صوبہ پنجاب میں تاثرات جس تیزی سے پھیل رہے ہیں وہ ملک کے مفاد میںہر گز نہیں چنا نچہ ملک کے ایسے اداروں کو چاہئیے کہ وہ ان پر ملک کے مفاد کو ترجیح دیں کیو نکہ عوامی ردعمل غلط رستے پر گامزن ہو تا جارہا ہے ۔
جب اعتما د کو ٹھیس پہنچ جائے تو اس کے بحالی کے امکا نا ت کھٹن ہو جا یا کر تے ہیں۔ مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے بارے میں جو نفرت پھیلی تھی اس کا تدارک آج تک نہیں ہو پا یا ،جو نقصان پہنچا اس کا بھی ازالہ نہیں ہو سکا۔ پنجا ب میں جو سوچ ابھری ہے اس کے اثرات سیاسی جماعتو ںکے انتخابی جلسو ں کے تقابل سے ہو جا تا ہے ۔اب تو تحریک انصاف والو ں نے بھی اپنے جلسوں کے بار ے میں اعتراف کر لیا ہے۔ جہلم میں تحر یک انصاف کا جو انتخابی میلہ لگا اس میں عوام کی شرکت کی کمی کو بری طر ح محسو س کیا گیا وہ الگ بات ہے کہ تحریک انصاف کے ترجما ن فواد چوہدری نے جلسہ گا ہ کے خالی رہ جا نے کے بارے میں مختلف جو ا ز پیش کئے جس میں دہشت گردی کا خوف بھی سامنے رکھا مگر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کے پی کے اور بلو چستان جو دہشت گردی کا براہ راست شکا ر ہوئے ہیں وہاں انتخابی مہم کا میا بی کے ساتھ جا ری ہے ۔کوئی خوف وہراس ایسا نہیں پا یا گیا کہ پنڈال خالی رہ جائیں اور اس کی وضاحت پیش کرنا پڑے ۔
وضاحت پر یا د آیا کہ پاکستان میںایک قومی ادارے کو واضح طور پر انتخابات میں عدم مداخلت کے بارے میں بیا ن جاری کر نا پڑ ا ، تاہم اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ ابھی سے چرچا موجودہے اور کوئی بھی جماعت انتخابات میںدھاندلی کو اچھالنے کی بہتر پو زیشن میں ہے۔صرف عمر ان خان کے علا وہ تقریباًسبھی جماعتو ں بالخصوص مسلم لیگ ن ، پی پی تو کھل کر اس بارے میں اظہا ر خیال کررہی ہیں کہ لا ڈلے کو جتوانے کے انتظامات جاری ہیں ۔مسلم لیگ ن نے تو پارٹی کے اندر مبینہ دھاندلی کا مقابلہ کر نے کیلئے ایک’’ دھاندلی روک‘‘ شعبہ بھی قائم کر لیا ہے ۔مسلم لیگ ن جن اداروں یا قوتو ں پر انگشت نمائی کررہی ہے ، عمر ان خان انہی قوتو ں اور اداروں کی کھل کر حمایت کر تے ہیں جس سے عوام میں یہ تاثرجا تا ہے کہ مسلم لیگ کے اکا برین اپنی جگہ سچے ہیں ۔اب تو انتخابی رخنہ کا ذکر کر نے لگی ہے اور تو اور اے این پی کے رہنما اسفند یا ر ولی جو اپنے بزگوں کی طرح ٹھنڈے مزاج کی سیا ست کے دلد ادہ ہیں وہ بھی ما یو سیا نہ مزاج کا شکا ر ہو گئے ہیں۔ انھو ں نے گزشتہ روز صحافیو ں سے گفتگو کر تے ہیں کہا کہ اب طے ہے کہ عمر ان خان اقتدار میں آجا ئیگا وہ ضرور اقتدارحاصل کرنے میں کا میاب ہو جائیگا ۔ان سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ انتخابات جیت جائیں گے تو انتہائی یا سیت سے اسفند یار گویا ہوئے: جیت کے آئیں یا جتوا کے لائے جائیں آگے وہی ہے۔ یہا ں کہنے کا مقصد یہ ہے کہ انتخابات کے شفاف ، غیر جا نبدار ہو نے پر سے اعتما د اٹھ گیا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ رہی ہے کہ عمر ان خان کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کوجیسے رخنے پڑے اس نے انتخابات کی شفافیت کو متاثر کیا ہے۔ اس میں نگر ان حکومت کی کوتاہی شامل ہے ۔ یہی کہا جاسکتا ہے۔ مثلا ًنو از شریف اور مریم نو از کو عدالت نے سز ا دی۔ دونو ں مفرور نہیں ہیں ،نہ ہی دہشت گردوں کی طرح خطرنا ک ملزم یا مجر م ہیں۔ انہوں نے گرفتاری کیلئے خود کو پیش کیا۔ ایسے میں نیب نے ان کو گرفتا رکر نا تھا جس کیلئے ان کو صرف پولیس کی ضرورت تھی اور وہ بھی ایئر پو رٹ کے اندر موجود تھی ۔جہا ںتک مسلم لیگ کے احتجا ج کا تعلق ہے تو اس کیلئے نگران حکومت کومو ثر اقدام کا حق حاصل تھا لیکن اس سارے امو ر کا انتظام جب ایک ادارے کے حکا م براہ راست سنبھالیں گے تو سوال تو اٹھیں گے۔ ایئر پورٹ کو پو لیس پا رٹی کے حوالے سے دیگر سیکیورٹی فورس سے بھر نے کی کیا ضرورت تھی جس سے تاثرغلط گیا۔ ایک غیر ملکی میڈیا کے مطابق اس عبوری دور میں مسلم لیگ ن کے ارکا ن کیخلا ف قریب 17 ہزار مقدمات درج کئے جا چکے ہیں۔ ان میں دہشتگردی کے الزام میں بھی پر چہ کاٹا گیا ہے۔ مسلم لیگ کل تک پاکستان میں اقتدار میںتھی گویا کل تک اس ملک میں دہشتگرد حکمر انی کر رہے تھے ۔
ویسے کسی بھی ملک میں عام انتخابات ہو ں ،دوسرے ملکوں کی ان میں اپنے مفادا ت کی حد تک دلچسپی لا زمی ہو تی ہے چنا نچہ پا کستان کے انتخابات میں بھی رہی ہے اور اب بھی ہے۔ پنجا ب میں ایک جماعت کی سیا سی قوت کو ضعف پہنچانے کیلئے بعض نئی دینی جماعتوں کو انتخابی مید ان سجا نے کا مو قع ملا ہے۔ اس بارے میں بیرونی میڈیا بھی اور بعض لیڈر بھی تنقید کر رہے ہیں اور ان جماعتو ںکو انتہا پسند دینی جماعت قرار دے رہے ہیں ۔ ان قوتو ں کو پاکستان میں دینی جماعتوں کا سیا ست میں آنا بہت ہی کھٹکتا ہے۔ ان کا قومی دھا رے میںآنا بھی گوارہ نہیں مگر یہ نہیں دیکھتے کہ پاکستان میں اقلیتو ںکے ساتھ کتنا بہترین سلو ک کیا جا تا ہے کہ ان کے لیے نہ صرف مخصو ص نشستیں بھی محفوظ ہیں اور عام نشستوںپر بھی وہ مقابلہ کرنے کا حق رکھتے ہیں ، مثلاً پشاور سے پہلی مرتبہ ایک سکھ امید وار سردار رادیش سنگھ ٹونی دھڑلے سے اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ وہ پشاور میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے باوجو د گلی گلی ، قریہ قریہ ، گھر گھر جاکر اپنی انتخابی مہم میںمصروف ہیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭