Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مملکت میں بے روزگاری

ڈاکٹر ملفی الرشیدی ۔ عکاظ
مجھے نہیں معلوم کہ ہمارے یہاں نجی اداروں نے سعودیوں کو روزگار دلانے کے سلسلے میں اعلیٰ ترین درجہ کیونکر حاصل کرلیا ایسے عالم میں جبکہ ہندوستانی اور پاکستانی یہاں کی 16فیصدملازمتوں پر حاوی ہیں، مذکورہ مقام کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات مجھے اچھی طرح سے پتہ ہے کہ بے روزگاری ہمارے یہاں کے دائمی مسائل میں سے ایک ہے۔ اس پر بحث ہوتی رہتی ہے۔ ہر پہلو سے اسکا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ اسکالر اور صحافی ذہنی ریاضت کرکے اسکے حل پیش کرتے ہیں۔ آخر میں چل کر ہم سب لوگ بے روزگاری کا ذمہ دار یا حکومت کو ٹھہرا دیتے ہیں یا نجی اداروںکو لعنت ملامت کرنے لگتے ہیں یا خود بے روزگاروں کو بے روزگاری کا ذمہ دار گردان دیتے ہیں۔ حق اور سچ بات یہ ہے کہ کسی بھی فریق کو بے روزگاری کا ذمہ دار ٹھہرانے سے مسئلہ نہ تو حل ہوا ہے او رنہ ہی ہوگا۔ یہ وقت جدوجہد اور سوچ کا ضیاع ہے۔ صورتحال بد سے بدتر ہوگی۔ تمام فریق مل جل کرہی یہ کام انجام دے سکتے ہیں۔
ایسے عالم میں جبکہ ہمارے یہاںنجی اداروں کی بیشتر اسامیوں پر تارکین وطن براجمان ہیں، ایسے عالم میں روزگار کے نئے مواقع فراہم کرنے کی باتیں خلاف عقل ہی لگتی ہیں۔12فیصد بے روزگاری کا مسئلہ حل کرنے کی بحث ایسی صورت میں بے معنی ہی ہوگی جبکہ یہاں84فیصد ملازمتیں غیر ملکیوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ 
غیر ملکی کارکن دنیا کے ہر علاقے میں ہیں۔ ہندوستان کو ہی لے لیجئے۔ وہاں متعدد ممالک کے لاکھوں لوگ ملازمت کیلئے پہنچ رہے ہیں۔ ان میں ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک کے شہری شامل ہیں۔ تازہ ترین اعدادوشمار سے پتہ چلا ہے کہ غیر ملکیو ںکوسب سے زیادہ روزگار فراہم کرنے والے ملکوں میں ہند کا نمبر 14واں ہے۔ ایک اور انوکھی بات یہ ہے کہ ہندوستان میں زیادہ تر غیر ملکی تعمیرات ، انجینیئرنگ، مالیاتی خدمات، ٹیکنالوجی اور مواصلات کے شعبوں سے منسلک ہیں۔
بے روزگاری بدترین سماجی دکھ ہے۔ ہمارے یہاں بیشتر بے روزگار تعلیم یافتہ ہیں۔ان کے پاس یونیورسٹی کی ڈگریاں ہیں۔ یہ لوگ محترم ملازمت کے انتظار میں گھروں میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں۔ انہیں دسیوں آسامیاں پیش کی جاتی ہیں مگر لینے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ اگر آرامکو کی طرح مادی ترغیبات کا سلسلہ شروع کردیا جائے تو ایسی صورت میں مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ نظریات اور سماجی معاملات سے بالا ہوکر اگر دیکھا جائے تو اس کا بنیادی حل ذہنیت کی تبدیلی میں مضمر ہے۔ تخلیقی صلاحیتوں اور مختلف امور انجام دینے کے ہنر کو جمع کرکے کافی کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اصل مسئلہ یہی ہے کہ ہم لوگ بقدر ضرورت خود کو سمجھ نہیں رہے اسی لئے بے روزگاری میں مبتلا ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: