مکانات کے کرایہ معاہدے شمسی کیلنڈر کے مطابق ہونگے
ریاض .... مکانات کے کرایہ معاہدے شمسی ہجری کیلنڈر کے مطابق ہونگے۔ کرایہ معاہدے میں اسکی باقاعدہ وضاحت ضروری ہوگی۔ عیسوی سال اور تاریخ کے حساب سے شمسی ہجری کیلنڈر کی تاریخ درج کی جائیگی۔ وزارت محنت و سماجی بہبود اور وزارت آباد کاری کی ویب سائٹ سے یہ وضاحت اس سوال کے جواب میں کی گئی جس میں کرایہ داروںکی جانب سے دریافت کیا گیا تھا کہ کیا کرایہ معاہدوں میں ہجری تاریخ موثر ہوگی جیسا کہ موجودہ رواج ہے۔ اس کے جواب میں بتایا گیا کہ مکانات کے کرایہ معاہدوں کا مضمون ایک ہوگا اور اس میں کرائے کی ادائیگی ہجری شمسی کیلنڈر کے مطابق ہوگی۔ وضاحت کیلئے کرایہ معاہدے میں عیسوی ماہ اور تاریخ کا اندراج کرنا ہوگا۔ ایک سوال یہ کیا گیا کہ اگر کرایہ دار کرائے کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لے تو ایسی صورت میں اسے کرایہ دینے کا پابند کس طرح کیا جاسکے گا۔ اس کے جواب میں بتایا گیا کہ مشترکہ کرایہ معاہدہ واجب النفاذ قانونی سند کا درجہ رکھتا ہے۔ مالک مکان ایگزیکٹیو کورٹ سے رجوع کرکے کرایہ دار سے کرایہ وصول کرسکتا ہے۔ ایگزیکٹیو کورٹ اس سلسلے میں اس کی مدد کریگی۔ ایک سوال یہ پوچھا گیا کہ اگر کوئی کرایہ دار ایسے مکان میں سکونت پذیر ہو جس کی ملکیتی دستاویز کرائے پر مکان اٹھانے والے کے پاس نہ ہو تو کیا ایسی صورت میں یہ کرایہ نامہ موثر ہوگا یا نہیں۔ اس کے جواب میں بتایا گیا کہ ”ایجار“ پر اندراج کیلئے مکان کی ملکیتی دستاویز ہونا ضروری ہے۔ کرایہ داروں نے ایک سوال یہ کیا کہ کیا کرایہ قسطوں میں ادا کیا جائیگا۔ اس کے جواب میں بتایا گیا کہ متعلقہ فریقوں کے درمیان سمجھوتے کے مطابق کرایہ سالانہ، سشماہی ، سالانہ اور ماہانہ ہر طرح سے دیا جاسکے گا۔ مکان کے مالک کو چھت سے پانی رسنے اور دیوارو ںمیں شگاف پڑجانے کی صورت میں اصلاح و مرمت سے اجتناب کرنے پر مرمت کا پابند کس طرح کیا جاسکے گا۔ اس سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ کرایہ دار مالک مکان کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کرنے کا مجاز ہوگا اورمرمت نہ کرانے کی صورت میں پہنچنے والے نقصان پر زرتلافی طلب کرسکے گا۔ وزارت آباد کاری سے ایک سوال یہ کیا گیا کہ اگر کرایہ معاہدہ کے فریقوں میں اختلافات پیدا ہوگئے تو کیا ”ایجار“ انتظامیہ مسئلہ حل کرائیگی۔ جواب دیا گیا کہ وزارت آباد کاری کرایہ معاہدے کے تمام فریقوں کے حقوق و فرائض متعین کرنے والا نظام تیار کررہی ہے۔ اسکی بدولت متعلقہ فریقوں کے درمیان اختلافات کا تصفیہ مثالی شکل میں ہوجائیگا۔ وزارت سے پوچھا گیا کہ مکانات کے منصفانہ کرائے کس طرح متعین ہونگے۔ جواب دیا گیا کہ مشترکہ کرایہ معاہدے میں کرایہ داروںکو طویل المیعاد معاملے کی سہولت دی گئی ہے۔ اسکی بدولت کرایہ دار معاہدے کے دوران کسی بھی اضافے کو مسترد کرنے کا مجاز ہوگا۔ علاوہ ازیں مختلف محلوں میں مکانات کے کرایوں کا گراف بھی مسابقتی کرایوں کی نشاندہی میں معاون بنے گا۔ ایک سوال یہ کیا گیا کہ ایجار انتظامیہ عمارتوں کی مرمت کا مسئلہ کس طرح سے طے کریگی۔ مرمت کا ذمہ دار کون ہوگا؟ کرایہ دار یا مکان کا مالک۔ جواب دیا گیا کہ معاہدے کے بموجب کرائے پر اٹھانے والا ہی مقررہ نظام الاوقات کے مطابق اصلاح و مرمت کے اخراجات ادا کرنے کا پابند ہوگا۔ عمارت کی سلامتی پر اثر انداز خرابی کی مرمت مکان کا مالک ہی کرائیگا۔کرایہ معاہدے میں یہ بات بھی واضح کردی گئی ہے کہ عمار ت کے مشترکہ حصوں کے تحفظ کی پابندی کرایہ دار کو کرنا ہوگی اور ہر کرایہ دار مشترکہ حصوں سے استفادہ مناسب طریقے سے کریگا۔کرائے کا معاہدہ کس طرح ختم ہوگا ؟اس سوال کا جواب دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ایک صورت یہ ہے کہ کرائے کا معاہدہ مقررہ مدت کیلئے ہو۔ یہ مدت مکمل ہونے پر معاملہ تمام ہوجائیگا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کرائے کے معاہدے میں خودکار نظام کے تحت توسیع کی گنجائش رکھی گئی ہو۔ ایسی حالت میں ”ایجار “ کے ذریعے فریقین کو کرایہ معاہدہ ختم کرنا ہوگا۔ ایک سوال یہ کیاگیا کہ کیا کرایہ دار کو کرایہ معاہدے میں نجی قومی پتہ درج کرنا ہوگا یا عمارت کا پتہ تحریر کرانا ہوگا۔ عمارت کا پتہ درج کیا جائیگا اور یہ خود بخود مشترکہ کرایہ معاہدے کے تحت کرایہ دار کے پتے سے منسلک ہوجائیگا۔
پی ٹی آئی حکومت سے کیا توقعات ہیں، رائے دیں