Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب اور مغربی تمدن

محمد السعیدی ۔ الوطن
(آخری قسط)
شاہ عبدالعزیز پر مسئلہ فلسطین کے سودے کا الزام لگانے والوں سے یہ بھی عرض ہے کہ1364ھ کے دوران دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے اعلان سے قبل امریکی صدر فرینکلین روز ویلٹ نے متعدد قائدین کیساتھ خفیہ ملاقاتوں کے پروگرام کے تحت شاہ عبدالعزیز سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ امریکی صدر نے اس سلسلے میں مصر کے فرمانروا شاہ فاروق اور ایتھوپیا کے فرمانرواھیلا سلاسی سے ملاقاتیں کی تھیں۔شاہ عبدالعزیز اور روز ویلٹ کی ملاقات کے دوران زیر بحث آنے والے موضوعات میں سب سے پہلے ولیم اے ڈی نے مضمون تحریر کیا تھا۔ اے ڈی سعودی عرب میں امریکہ کے پہلے بااختیاراہلکار تھے۔ وہ دونوں ملکوں کے رہنماﺅں کی ملاقات کی تیاری اور ملاقات کے موقع پر موجود تھے۔ آئندہ سطور میں کچھ ایسے نکات پیش کرونگا جن سے مغربی تمدن کی علمبردار ریاست کے ساتھ شاہ عبدالعزیز کی پہلی ون ٹو ون ملاقات کے موقع پر ان کے اصول اجاگر ہونگے۔
پہلا نکتہ:۔ شاہ عبدالعزیز نے اس امر پر زور دیا کہ وہ اپنے دین اسلام کی تعلیمات میں کسی طرح کی کمی بیشی نہیں کرینگے۔ انہوں نے اتنا ہی نہیں بلکہ ایک اور پہلو اجاگر کیا وہ یہ کہ امریکی پروٹوکول کے دباﺅ میں وہ دینی تعلیمات سے دستبردار نہیں ہونگے بلکہ دینی تعلیمات سے وابستگی کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کرینگے۔ شاہ عبدالعزیز نے اسی مقصد کے تحت اپنے لئے ذبح کئے جانے والے دنبوں کی تعداد میں اضافہ کردیا تھا۔
شاہ عبدالعزیز کو جدہ بندرگاہ سے لینے کیلئے آنے والے امریکی جنگی جہاز کے کیپٹن نے توجہ دلائی تھی کہ ہمارے پاس فروزن گوشت اچھی خاصی مقدار میں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جہاز پر مویشیوں کے باڑے کی کوئی گنجائش نہیں ہے تاہم شاہ عبدالعزیز کے نمائندے نے ضد پکڑ لی کہ شاہ اور انکے رفقائے سفر کا کھانا اسلامی طرز پر ہوگا۔ یہ موقف دیکھ کر جہاز کے عملے نے آخری حصے میں باڑے کا انتظام کیا اور ساتھ ہی ساتھ شاہ عبدالعزیز کے لئے کھانا تیار کرنے کیلئے کوئلے کی انگیٹھی کا بھی انتظام کیا گیا۔
شاہ عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کے نمائندوں نے جہاز پر ایسی جگہ کا انتخاب بانی مملکت کیلئے کیا تھا جہاں سے وہ نماز کے وقت قبلہ رخ ہوکر عبادت کرسکیں۔
مروی جنگی جہاز نہر سویز پہنچا تو شاہ عبدالعزیز کو وہاں سے کوئن سی جہاز پر منتقل کردیا گیا۔ صدر روز ویلٹ نے ان کا خیر مقدم کیا۔ گفت وشنید کا موضوع فلسطین میں آبا د کاری سے متعلق یہود کا حق تھا۔ امریکی صدر نے فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کے مسئلے کو پوری قوت سے اٹھایا۔ ایسا لگتا تھا کہ امریکی صدر کو 4برس قبل موصول ہونے والا شاہ عبدالعزیز کا پیغام اچھی طرح سے یاد تھا۔ شاہ عبدالعزیز نے اس کے جواب میں امریکی صدر سے جو کچھ کہا اس کا ماحصل یہ تھا کہ اگر اتحادی یہودیوں پر اہل جرمن کے ظلم و ستم کو درست سمجھتے ہیں تو انکی ذمہ داری ہے کہ وہ جرمنی کا ایک حصہ یہودیوں کے حوالے کریں نہ کہ فلسطین کا ۔ شاہ عبدالعزیز نے یہ بھی کہا کہ اگر امریکی صدر کے بقول یہودی جرمنی میں زندگی نہیں گزار سکتے تو اتحادی ممالک انہیں اپنے یہاں رہنے سہنے کا موقع فراہم کردیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب امریکی صدر روز ویلٹ نے یہودیوں کو فلسطین کے بجائے لیبیا بھیجنے سے متعلق چرچل کی تجویز کی بابت انکی رائے دریافت کی تو انہوں نے کہا کہ انکے لئے یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کی تجویز مسترد کرنے کے بعد انہیں کسی ایسے ملک میں بسانے کی تجویزقبول کرنے کا کوئی جواز نہیں جس کا ہٹلر سے یہودیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے کوئی تعلق نہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ اس ملاقات نے یہودیوں کے مسئلے سے متعلق روزویلٹ کے تصورات کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا تھا۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے مشرق وسطیٰ سے امریکہ واپسی پرکہاتھا کہ عبدالعزیز نے پانچ منٹ کی ملاقات میں یہودیوں کے مسئلے کی بابت مجھے وہ سب کچھ بتا دیا جو میں دسیوں مضامین اور مکاتیب سے نہیں سمجھ سکا تھا۔ مسئلہ فلسطین شاہ عبدالعزیز کی نظر میں پہلا مسئلہ تھا۔ وہ جس عالمی رہنما یا سفیر سے ملاقات کرتے مسئلہ فلسطین کو ضرور اجاگر کرتے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: