سعودی عرب اور اسکے بانی کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے اول فول باتیں کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ وہ بانی مملکت کی قد آور شخصیت کو مجروح کرنے کیلئے یہ بات بڑی قوت سے اٹھاتے ہیں کہ شاہ عبدالعزیز برطانیہ سے عطیہ وصول کیا کرتے تھے۔ عبداللہ فلیپی نے اپنی یادداشتوں میں اسکا تذکرہ کیا ہے۔ میں ان لوگوں سے یہی کہوں گا کہ اگر عبدالعزیز نے برطانیہ سے عطیات لئے تو یہ بتائیے کہ اس میں برائی کیا ہے؟ اس دور کی تمام طاقتور شخصیتیں دنیا کی سب سے بڑی ریاست برطانیہ سے رقوم وصول کررہی تھیں۔ برطانیہ کے عہدیداروںکا کہناہے کہ انکی سلطنت اپنے حریفوں کو اپنی طرف مائل کرنے کیلئے عطیات پالیسی اپنائے ہوئی تھی۔
سوال یہ ہے کہ بانی مملکت نے عطیات کے بدلے برطانیہ کو کیا دیا؟
جواب یہ ہے کہ کچھ نہیں دیا بلکہ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ بانی مملکت نے صرف اتنا کیا کہ عراق، شام او رخلیج کی برطانوی کالونیوں پر لشکر کشی سے گریز کیا۔ اگر یہ کوئی خدمت تھی تو یہ شاہ عبدالعزیز نے انجام دی۔ برطانیہ نے اس کو بہت کافی سمجھا اور اپنی کالونیوں کو بانی مملکت کی لشکر کشی سے بچانے کو اپنا کارنامہ قرار دیا۔
مملکت کے ناقدین اپنی عداوت اور نفرت کی آگ نکالنے کیلئے مسئلہ فلسطین کا بھی سہارا لیتے ہیں او راس حوالے سے طرح طرح کے افسانے گھڑے ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بانی مملکت نے مسئلہ فلسطین کا سودا کرلیا تھا۔
تاریخی واقعات کا تسلسل بتاتا ہے کہ یہ الزام نفرت اور عداوت کا غماز بے شک ہے ۔کوئی دلیل کوئی تاریخی منطق اور کسی بھی طرح کا کوئی جواز اس دعوے کے حق میں کبھی کسی نے پیش نہیںکیا۔ چشم کشا حقائق مندرجہ ذیل ہیں:
برطانیہ نے 1336 ھ میں فلسطین پر ناجائز قبضہ کیا۔ فلسطین اور سعودی عرب کی سرحد نہیں ملتی تھی۔ برطانوی افواج مصر کے راستے فلسطین میں داخل ہوئیں۔ الشریف فیصل اور لارینس کی زیر قیادت حجازی فوج نے برطانوی افواج کی مدد کی۔ برطانیہ کو فلسطین پر ناجائز قبضے کیلئے شاہ عبدالعزیز جیسی شخصیت کی مدد کی کوئی ضرورت بھی نہیں تھی۔ برطانیہ اس وقت نصف کرہ ارض سے زیادہ پر راج کررہا تھا۔
کنگ عبدالعزیز اکیڈمی نے بانی مملکت پر لگائے جانے والے الزامات کا جواب دینے کیلئے تمام دستاویزات یکجا کردی ہیں۔ دیگر زبانوں میں موجود دستاویزات کا عربی میں ترجمہ دیا ہے۔ یہ دستاویز 20جلدوں میں محفوظ کی گئی ہیں۔ اسکالرز نے انکا مطالعہ کرکے اعتراف کیا کہ ناقدین کے کسی بھی الزام کا کوئی ثبوت انہیں نظر نہیں آ یا۔ شاہ عبدالعزیز حقیقت پسند سیاستدان تھے۔ وہ اپنے دور کے طاقتور ممالک سے گفت و شنید کا طریقہ جانتے تھے۔ انہیں پتہ تھا کہ طاقتور ممالک کے مفادات کے ساتھ چھیڑ خانی یا گفت و شنید میں بدزبانی یا مذاکرات کے دوران سخت کلامی کا مطلب بڑی طاقتوں کو اپنے خلاف محاذ آرائی پر آمادہ کرنے کے مترادف ہے۔ شاہ عبدالعزیز اپنے دور کی بڑی طاقتوں کے ساتھ حکمت و فراست اور دور اندیشی کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ جس سے جو چاہتے وصول کرلیتے اور اسکے بدلے میں اپنی پسند کا معاوضہ دیتے۔ شاہ عبدالعزز کو اپنی یہ پالیسی برقرار رکھنے میں اس بات سے بھی مدد ملی کہ بڑی طاقتیں دو عالمی جنگوں میں یکے بعد دیگرے مصروف رہیں۔شاید یہ انتظام من جانب اللہ ہی ہوگیا تھا۔
آئیے ایک بار پھر مسئلہ فلسطین کا تذکرہ کرتے ہیں۔ شاہ عبدالعزیز پہلے مسلم رہنما ہیں جنہوں نے فلسطین کیخلاف جارحیت کی منصوبہ بندی کو محسوس کیا۔ انہوں نے 1359ھ کے دوران دیکھا کہ دوسری عالمی جنگ ٹھیک اسی طرح ختم ہونے والی ہے جس طرح کہ پہلی عالمی جنگ اختتام پذیر ہوئی تھی۔ امریکہ نے مداخلت کرکے دوسری عالمی جنگ کا فیصلہ کردیا۔ اس طرح فیصلہ ساز طاقت کی حیثیت یورپی ممالک کے بجائے امریکہ کو حاصل ہوگئی۔ شاہ عبدالعزیز نے امریکی صدر فرینکلین روزویلٹ کو پیغام بھیج کر یاددہانی کرائی کہ امریکہ کو فلسطین میں یہودی آباد کاری بند کرانی ہوگی۔ یہ آپ کا فرض ہے۔ فلسطین میں یہودی آباد کاری کا علم برطانیہ بلند کئے ہوئے تھا۔ ایک طرح سے بانی مملکت کا یہ پیغام مشرق وسطیٰ کے مستقبل کے حوالے سے امریکی کردار سمجھنے کے حوالے سے اپنی نوعیت کا پہلا عمل تھا۔ سعودی عرب دنیا کی سب سے بڑی استعماری طاقت برطانیہ کے مقابلے میں اس کی جرا¿ت نہیں کرسکتاتھا۔