Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صدر مملکت بننے کیلئے عارف علوی کیلئے راستہ صاف ہوگیا

مولانا فضل الرحمن جسے چوری کے ووٹوں سے منتخب پارلیمنٹ کہتے تھے، اسی سے ووٹ مانگ رہے ہیں، تجزیہ
کراچی (صلاح الدین حیدر)  تمام شبہات، ابہام ایسے غائب جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ تحریک انصاف کے صدارتی امیدوار ڈاکٹر عارف علوی کو یوں تو 4 ستمبر تک انتظار کرنا ہوگا، لیکن اُن کا صدر مملکت جیسے اعلیٰ عہدے کے لئے میدان صاف ہوچکا۔ ایک تو خود اُن کی شخصیت ہی اتنی پُرکشش ہے کہ لوگ کچے دھاگوں سے بندھے چلے آتے ہیں، دوسری اور سب سے بڑی وجہ اُن کے لیڈر عمران خان کی قسمت کا سورج بلندیوں کی اعلیٰ ترین سطح کو چھو رہا ہے۔ کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ مولانا فضل الرحمن جو انتخابات کو قبول کرنے کے مخالف تھے، پارلیمنٹ کو چلنے نہ دینے کی آواز بلند کرتے تھے،چوری کئے ہوئے ووٹوں سے منتخب کی گئی پارلیمنٹ سے آج خود ووٹ مانگ رہے ہیں،یو م آزادی کو نہ ماننے کا اعلان کرکے پاکستان کی توہین کی تھی اور آج ہر ،ہرقیمت پراسی پارلیمنٹ کا حصہ بننے کیلئے بے قرار ہیں ۔پچھلے کچھ روز سے خاص طور پر گزشتہ چند روز سے مقابلہ سخت نظر آرہا تھا۔ تمام حزب اختلاف کی جماعتیں بغض میں یکجا ہوگئی تھیں۔ سب کے زخم ہرے تھے۔ تروتازہ جیسے جانور حلال کرتے وقت نسوں سے خون رستہ ہے۔ بڑے بڑے برج الٹ چکے تھے۔پے درپے شکست کے بعد بھی مولاناجنگ و جدل پر آمادہ نظر آئے، پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ، اور مسلم لیگ (ن) کے موجودہ صدر شہباز شریف سے ملاقات کی اور راضی کیا کہ ہتھیار ڈالنے کے بجائے، زور آزمائی کی جائے۔ ایک آل پارٹیز کانفرنس مری کے پُرفضا مقام پر دو روز پہلے بلائی گئی، پیپلز پارٹی نے تو شرکت کی، لیکن بھلا ہو آصف زرداری اور اُن کے صاحبزادے بلاول کا، جو شرکت سے باز رہے، بلکہ آصف زرداری باوجود حلیفوں کی تمام تر کوششوں کے اپنی بات پر مستقل مزاجی سے ڈٹے رہے۔ اُنہوں نے اپنے صدارتی امیدوار سینیٹر اعتزاز جیسی ہردل عزیز شخصیت کو بدلنے سے انکار کردیا، سید خورشید شاہ، شیری رحمٰن نے بھی اُن کا ساتھ دیا، کئی ایک اجلاس ہوئے، لیکن زرداری نے فیصلہ بدلنے سے انکار کردیا۔ سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی کا نام تک سامنے آیا، لیکن زرداری ٹس سے مس نہ ہوئے۔ بالآخر فضل الرحمٰن، شہباز شریف اور اُن کے ساتھیوں کو پیچھے ہٹنا پڑا، اور دو دن تک یہ اجلاس جاری رہنے کے باوجود، کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہوگیا۔ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔اعداد و شمار کے اس گیم میں پی ٹی آئی متفکر نظر آئی، وزیر اطلاعات فواد چوہدری کہتے تو رہے کہ عارف علوی صدر منتخب ہوجائیں گے، لیکن اُن کا بیان ہوائوں کے رخ شمع جلانے سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ عمران خان اپنے ہمدرد ساتھیوں کے ساتھ سرجوڑے بیٹھے رہے، صدارتی انتخاب اب تک کے تمام ہونے والے انتخابات میں سب سے بڑا چیلنج تھا۔ دو ایک نمبر بھی فیصلہ کُن اور باعث شرمندگی ثابت ہوسکتے تھے، لیکن جسے اﷲ رکھے اُسے کون چکھے، زرداری نے جب صاف طور پر شہباز اور فضل الرحمٰن کو واضح پیغام دے دیا کہ اعتزاز پر کوئی سودا نہیں ہوگا، تو بہت سارے زخم خوردہ دلوں میں ٹھنڈک پڑ گئی، اب عارف علوی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی، اُن کا انتخاب کرسیٔ صدارت کے لئے حرف آخر بن چکا ہے۔ ذرا غور کریں کہ پی ٹی آئی کی حکومت وفاقی، پنجاب اور کے پی کے میں اور صدر کسی اور پارٹی کا۔ کتنے کٹھن مراحل سے پی ٹی آئی کو گزرنا پڑتا۔ اﷲ جس کا ساتھ دے،وہ سرخرو ہوتا ہے۔ عمران ایک ایمان دار شخصیت کا نام ہے۔ کامیابی اُس کا مقدر ہے۔ 
 

شیئر: