Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عارف علوی کےلئے میدان صاف

***سید شکیل  احمد  ***
پیر مردان شاہ پگار ا جی ایچ کیو سے غیر متزلزل وابستگی کا اظہا رکر نے کے ساتھ ہی پا کستانی سیا ست اور اس کے مد ر وجزر کے بارے میںاہم انکشافات بھی فرما یا کرتے تھے ، ان کی رحلت کے بعد پاکستانی سیا ست میں ایسا کوئی پیشن گوئی کرنے والا نہیںرہا البتہ شیخ رشیدنے پر ویز مشرف کے دور سے یہ گدی زبردستی ہتھیانے کی سعی کی مگر ان کو اس جیسی پذیر ائی نہ حاصل ہو سکی البتہ سند ھ سے منظور وسان نے بھی یہ فریضہ انجا م دینا شروع کر دیا ہے ۔ لیکن اب پی پی کے مرکزی رہنما خورشید شاہ نے جو انکشاف کیا ہے وہ سب کو ورطہ حیرت میں ڈالے ہوئے ہے۔ خورشید شاہ پی پی پارلیمنٹیر ین کے سربراہ ہیں۔ شاہ صاحب کا فرمان ہے کہ وفاقی وزیر اطلا عات فواد چوہدری ان کے پا س تشریف لائے اس موقع پر سابق وزیرا عظم راجہ پر ویز اشرف بھی مو جود تھے  فواد  چوہدری نے تجو یز دی کہ تحریک انصاف اور پی پی مشترکہ صدارتی امید وار میدان میں لے کر آئے یہ تجو یز قبول کر لی گئی اورپی پی سے صدارتی امید وار کانا م مانگا گیا تو انھو ں نے اعتزاز احسن کا نا م پیش کیا جسے پی پی نے قبول کر لیا ۔ اب خورشید شاہ نے بدھ کو فرمایا کہ نہ جا نے کیوںپی ٹی آئی نے یو ٹرن لے لیا ۔ اعتزاز احسن کا نا م پی ٹی آئی کا تجو یز کر دہ ہے ۔
یہ بہت بڑا  انکشا ف ہے اس سے بھی زیا دہ انکشا ف یہ ہے کہ پی پی جو متحد ہ اپو زیشن کا حصہ ہے وہ حکمر ان جما عت کے ساتھ صدارتی امید وار کے لیے کس بنیا د پر معاہد ہ کر بیٹھی۔ مسلم لیگ ن کے نہا ل ہا شمی نے ایک نجی ٹی وی ٹاک میں انکشاف کیا تھا کہ پی پی اور پی ٹی آئی کا این آر او ہو گیا ہے جس پر پی پی کی نمائند گی کرنے والے منظور وسان تلملا تھے اور جو اباًانھو ں نے مسلم لیگ اور نو از شریف پر کئی الزامات کے راکٹ داغ دیئے تھے ،تاہم خو رشید شا ہ جیسے سنجید ہ سیا ستدان کی جانب سے ایسا نکشا ف یہ کہتا ہے کہ دونو ں جما عتوں میں ضرور رابطے ہیں۔ویسے یہ بات تو وزیر اعظم کے انتخاب کے مو قعہ پر کھل گئی تھی کہ پی پی نے شہباز شریف کا نا م پیش کر کے یو ٹرن لے لیا تھا اور اس طرح وہ پی ٹی آئی کے لیے بہترین سہو لت کا ر بن گئی تھی۔ اس وقت بھی پی پی کا وہی کر دار تھا جو سینٹ کے چیئر مین کے انتخاب کے مو قع پر زرداری نے ادا کیا تھا۔ اس وقت عمر ان خان اورآصف زرداری کھل کر ملے تھے اب سات پر دوں میں چھپے بیٹھے ہیں مگر پر دہ اب ایک بھی قائم نہ رہا ۔ 
              وزیر اعظم کے انتخاب کے مو قع پر متحد ہ حزب اختلا ف کی پو زیشن ڈھیلی ڈھالی سی تھی مگر صدرات کے انتخاب کے لیے وہ کا فی مضبوط پو زیشن لیے ہوئے تھی ، جب پی پی کے چیئر مین بلا ول نے دو ٹوک کہہ دیا کہ اعتزاز احسن ، اعتزازاحسن بس اعتزاز احسن تو بات مصفاء ہوگئی کہ پی ٹی آئی کے لیے ایک مر تبہ پی پی سہولت کا ر کا کر دار ادا کر رہی ہے کیو نکہ یہ با ت عام سمجھ کی ہے کہ اگر اپو زیشن متفقہ صدارتی امیدوار میدان میں لا نے میںکا میا ب ہو جا تی تو پی ٹی آئی کو یہ الیکشن بغیر جتن کیلئے جیتنا ممکن نہ ہوتا اب مید ان صاف ہے کیونکہ پی پی کے فیصلے سے اپو زیشن ووٹ تقسیم ہو گیا ہے اور پی ٹی آئی کے امید وار عارف علوی کیلئے میدان تقریباًصاف ہو چکا ہے ۔
میدان صاف ہو نے کے بارے میں مولا نا فضل الر ّحمان ذکر کر چکے ہیں ، لیکن بات کا الجھاؤ یہ ہے کہ آخر پی پی اعتزازاحسن پر کیوں اڑ گئی ہے ۔نظر تو یہ ہی آرہا ہے کہ اپو زیشن کے ووٹ تقسیم کر نا مقصود ہے اور عارف علوی کا راستہ صاف کرنا ہے مگر پی پی تو متحد ہ اپو زیشن کا حصہ ہے ۔چاہیے تو یہ تھا کہ اعتزاز احسن کو متحدہ اپو زیشن نا مزد کر تی جیسا کہ انھو ں نے مولانا فضل الرّحمان کو نا مزد کیا اب مولا نا فضل الرحمان ہی حزب اختلا ف کے مشترکہ امید وا رقرا ر پا تے ہیں  جبکہ اعتزاز احسن صرف پی پی کے امید وار ہیں جس کے ووٹ بہر حال مسلم لیگ ن اور متحد ہ اپو ز یشن کے ووٹو ں سے کہیں کم ہیں ، پھر کس آس پر ڈور ڈالی ہے ۔
          چلیں مسلم لیگ ن اور پی پی جنم جنم کی سیا سی حریف ہیں۔ مولانا فضل الرّحمان نے جنرل ضیا ء الحق کے دور سے ہمیشہ پی پی کا زبردست ساتھ دیا ہے خود  بے نظیر بھٹو بھی مولانا کی وفاداری کے قائل تھیں۔بینظیر بھٹو کا ساتھ دینے کی پا داش میں ان کی جماعت کا بٹوارہ ہو ا ۔مولانا سمیع الحق نے جد ا ہو کر ڈیڑھ اینٹ کی الگ جماعت بنا لی تھی ، مولا نا میں ایسے کو نسے گھن لگ گئے ہیں کہ آصف زرداری نے حزب اختلا ف کی جماعتو ں سے مشورہ تک نہیں کیا۔پی ٹی آئی کے جھانسے میں آگئے وہ تو خود کو سب پر بھاری قرار دیتے ہیں ۔اس کی گہر ائی میں جانے کی ضرورت نہیںہے سب عیا ں ہو چکا ہے مگر یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ شہباز شریف کو جو چوٹ وزیر اعظم کے انتخاب کے مو قع پر پڑی تھی۔ اس مر تبہ انھو ں نے اپنے پتے خوب دانشمند ی سے کھیلے ہیں اورپی پی کو مخمصے میں ڈال دیا ہے ۔
            اب جب کہ ایسا لگ رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان یا اعتزاز احسن میں سے کوئی دستبردار نہیں ہو ا تو عارف علوی کے نا م لا ٹری نکل آئے گی۔شہباز شریف نے یو سف رضا گیلا نی کا نام تجو یز کیا تھا جو پی پی نے مستیزکر دیا ۔ سوال یہ ہے کہ اعتزازاحسن میں ایسی کونسی خوبی ہے کہ آصف زرداری اپو زیشن کے بکھر نے کا بھی غم نہیں کر رہے ہیںاو ر صدارتی الیکشن میںکا میا بی نظر بھی نہیں آرہی ہے اس کی بھی فکر نہیں اگر وہ یو سف رضا گیلا نی پرحا می بھر لیتے تو صورتحال پی پی کے حق میں جا تی ۔ اعتزاحسن کا طر ز عمل گزشتہ 8،9سا ل سے ایسا رہا ہے کہ وہ اپنی پا رٹی سے اکھڑ ے اکھڑے رہے ہیں جبکہ ان کو ما ضی میں پاکستان کے لیے سیکو رٹی رسک بھی قرار دیا جا تا رہا ہے ۔اہل پاکستان ابھی یہ بات نہیں بھولے کہ جب 1988ء  میںبینظیر بھٹو پہلی مرتبہ برسراقتدار آئیں تو اعتزاز احسن کو وفاقی وزیر داخلہ کا قلمدان سونپا گیا تھا اس زما نے میں راجیو گا ندھی پا کستان آئے تھے ان کے بے نظیر سے مذاکرات ہوئے تھے۔ ہند اس وقت خالصتان تحریک کے شکنجے میں پھنسا ہو اتھا جس پر اس نے بے نظیر سے مدد اس شرط پر طلب کی تھی کہ اگرپا کستان آزاد خالصتان کے معاملے میں بھارت کی مد د کر دے تو  ہند سیا چین کا علا قہ پاکستا ن کو وا گزار کر دے گا جس کے بعد اعتزازاحسن کے بارے میں مبینہ طورپر بتایا جا تا ہے کہ وہ ہند کے دورے پر گئے جہا ں انھو ں نے ہندوستانی حکومت کو آزاد خالصتان تحریک سے متعلق معلو مات کی فائل حوالے کی تھی، مگر راجیو گاندھی نے اپنا وعدہ سیا چین سے متعلق پو را نہیں کیا جس پر بے نظیر بھٹو ، ہندسے گلہ  بھی کیا کہ ہم نے  ہند کی مدد کی مگر راجیو گاندھی نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا ۔ اگرچہ ما ضی میں اعتزاز احسن ایسا کردار ادا کرنے کی تردید کر چکے ہیں مگر آفیشل طو رپر کوئی تر دید سامنے نہیں آئی ۔ نو از شریف سے اس بارے میں کوئی توقع عبث تھی کیو نکہ عمر ان خان ان کو مودی کا یا ر کہتے ہیں مگر عمر ان خان آج خود عہد ہ جلیلہ پر فائز ہیں اور پا کستان کو مستحکم کر نا چاہتے ہیں چنا نچہ ان کو چاہیے کہ وہ اس بارے میں فائل نکلو ائیں اور اس امر کی تحقیق کر ائیں کہ کس کس نے ہند سے یا رانہ کیا ہے ۔
 

شیئر: