حجرہ شریفہ کے حاجب اور زائرین کے خطوط
مرزوق بن تنباک ۔ مکہ
ہر ہجری سال کے آخری 3ماہ کے دوران اہل مدینہ اور اطراف کے باشندے حجاج کی خدمت میں لگ جاتے ہیں۔ ہر ایک اپنے انداز اور اپنی استعداد کے مطابق کام میں مصروف ہوجاتا ہے۔ مسجد نبوی شریف کے اطراف کے تمام مکانات حاجیوں کے رہائشی مراکز میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ مکین شہر سے باہر کھیتوں میں رہائش اختیار کرلیتے ہیں یا گھر کی چھت کے اوپر ڈیرہ ڈال لیتے ہیں او رمکان کے کمروں کو حاجیوں کیلئے چھوڑ دیتے ہیں۔ مدینہ منورہ کے بازار انواع و اقسام کے سامان سے بھر جاتے ہیں۔ ریڑھی والے بھی کثیر تعداد میں نظرآنے لگتے ہیں۔ حج ادارے حج موسم کیلئے عارضی ملازم کثیر تعداد میں تعینات کرتے ہیں۔ نقل و حرکت بڑھ جاتی ہے۔ مدینہ منورہ کے سب لوگ کوئی نہ کوئی ایسا مشغلہ اپنا لیتے ہیں جو انہیں آسان لگتا ہے۔ میں یہاں امسال حج موسم کے اختتام پر صرف ایک مشغلے کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔میں ایک زمانے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےلئے لکھے گئے زائرین کے خطوط پڑھا کرتا تھا اور حجرہ¿ شریفہ کے حاجبین میں سے ایک تھا۔
اس زمانے میں الحرم انتظامیہ ، پولیس اور ادارہ امر بالمعروف کے اہلکار ہر ہفتے پیر کے روز حجرہ شریفہ کے نگراں ہوتے۔ ہر پیر کو رات 4بجے تینوں اداروں کے نمائندے حجرہ شریفہ آتے ۔ حجرے کا دروازہ کھولا جاتا۔ اسکی صفائی ہوتی اور وہاں روشندانوں سے ڈالی ِجانے والی اشیاءجمع کیا کرتے۔ اُس وقت تک مسجد نبوی میں 2اغوات موجو د تھے۔ ان میں سے ایک نوجوان اور دوسرا معمر تھا۔ یہ آغا کہلاتے۔ وہ ہجرہ شریفہ کھولتے۔ سب سے پہلے وہی داخل ہوتے۔ تینوں مذکورہ ادارو ں کے ارکان کھڑے رہتے۔ آغا غرفہ شریفہ میں باہر سے ڈالی جانے والی اشیاءجمع کرکے ارکان کے حوالے کرتے پھر اندر سے غرفے کی صفائی کرتے۔ سب لوگ اس پر نظررکھتے۔ میں ادارہ امر بالمعروف کے ایک رکن کے ساتھ رہتاتھا۔ میرا کام غرفہ شریفہ میں موجود اشیاءکا ریکارڈ تیار کرنا او رتمام ارکان سے دستخط لینے کا تھا۔ امر بالمعروف کے اہلکار کی ذمہ داری ان خطوط کی حصولی تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام شفاعت کا وسیلہ حاصل کرنے کیلئے عازمین کی جانب سے ڈالے جاتے تھے۔ میں امر بالمعروف کے ایک نمائندہ کے ہمراہ جایا کرتاتھا۔ چونکہ میرا عقیدہ مشکوک تھا اسی وجہ سے کوئی نہ کوئی شیخ میرے ہمراہ ضرور ہوتا۔ ایک تو شیخ عبداللہ العثمان صالح تھے ،یہ ام القریٰ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر ناصر الصالح کے والد تھے یا میرے ہمراہ شیخ عبدالوہاب الزاحم ہوا کرتے تھے۔ دونوں منفرد شخصیت کے مالک تھے۔ ہر ایک کا طریقہ اپنا تھا۔ جب میں خطوط جمع کرلیتا تو انہیں کمیٹی کے ارکان کے سامنے ہی کھولا کرتا تھا۔ یہ پابندی اسلئے تھی کہ کہیں لفافوں میں کچھ پیسے وغیرہ نہ ہوں۔ جہاں تک خطوط کے مضامین کا تعلق ہے تو میں بعض خطوط شیخ کو پڑھ کر سناتا ۔جب بھی وہ وسیلہ کے حوالے سے کوئی بات سنتے تو خط لکھنے والے کی جہالت پر معاذ اللہ کہتے۔ پھر اس خط کو پھاڑ کر تلف کرنے کا حکم دیتے ۔ زیادہ تر خطوط عراق، مصر اور ایران کے زائرین کے ہوتے تھے۔ مجھے بعض خطوط بہت اچھے لگتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ انتہائی جذباتی اور مذہبی احساس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وسیلہ طلب کیا کرتے تھے۔ میں کبھی کبھار بعض خطوط چھپا کر لے آتا اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ کے سامنے خط نویس کی طرف سے پڑھ دیتا تھا۔ شیخ زاحم کٹر قسم کے سلفی تھے۔ وہ مجھے کوئی بھی خط وہاں سے لیجانے کی اجازت نہ دیتے البتہ شیخ عبداللہ العثمان نرم مزاج تھے۔ میں ایک خط کا تذکرہ ضرور کرونگا۔ وہ مصر کے الفیوم علاقے کی ایک شادی شدہ خاتون کا تھا۔ اس نے تحریر کیا تھا کہ ”میں غریب خاتون ہوں۔ میری شادی ایک خوشحال وکیل سے ہوئی ہے۔ 4برس ہوچکے ہیں۔ کوئی بیٹا پیدا نہیں ہوا ۔ ڈر ہے شوہر طلاق نہ دیدے۔ میںچاہتی ہوں کہ آپ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ تعالیٰ سے میری سفارش کردیںکہ اللہ مجھے بیٹے سے نواز دے“۔
میں نے یہ خط چھپا لیا اور اسے حجرہ مبارکہ کے سامنے کھڑے ہوکر بڑے احساس کےساتھ کئی بار پڑھا۔ میں نے پھر اس خاتون کے نام خط تحریر کرتے ہوئے اپنا تعارف کرایا کہ میں حجرہ شریفہ کا ایک حاجب ہوں اور تمہارا خط میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ کے سامنے کھڑے ہوکر پڑ ھ دیا ہے۔ میں نے اپنا پتہ بھی خط پر تحریر کردیا تھا۔ ایک برس بعد میرے نام الفیوم سے خط آیا جس میں بچے کی تصویر تھی او راس خاتون نیز اسکے شوہر کی جانب سے مجھے مصر کے دورے کی دعو ت دی گئی تھی۔میرے لئے دعائیں بھی تھیں اور تعریف بھی۔ اب مجھے افسوس ہوتا ہے کہ میں نے اس طرح کے خطوط جمع نہیں کئے ورنہ آج انکی صدائے باز گشت سنی جاتی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭