ملکی سرمایہ کاروں سے اب امید کم
ظفر قطب
ریاستی راجدھانی لکھنؤ میں ایک اور انویسٹر کا نفرنس (سرمایہ کاری کانفرنس ) مکمل ہوگئی ۔اس دوران ہزاروں کروڑوں روپے کے پروجیکٹوں اور دوسری کئی اسکیموں کا افتتاح وزیر اعظم مودی کے ذریعہ کرایاگیا۔اس موقع پر گومتی نگر میں واقع اندرا گاندھی پرتشٹھان میں ملک کے بڑے بڑے سرمایہ داروں کا جشن رہا۔حکمراں جماعت بی جے پی نے اس 2 روزہ تقریب کو کسی تہوار سے کم نہیں سمجھا ۔ اس سے قبل گذشتہ برس بھی اسی مقام پر ایک سرمایہ کاری کانفرنس ہوئی تھی۔ جس میں اربوں کھربوں روپئے کے پروجیکٹوں کا افتتاح ہواتھا کیونکہ اس میں بیرون ممالک کے سرمایہ کار بھی شریک ہوئے تھے۔اس میںغیر مقیم ہندوستانیوں نے بڑی دلچسپی دکھائی تھی لیکن بعد میں جو سچائی سامنے آئی وہ بہت ہی افسوسناک تھی کیونکہ تقریباًسال بھر بعد بھی اس میں سے ایک بھی پروجیکٹ کہیں نظر نہیں آیا۔اس کے باوجود بھی اس بار وزیر اعلیٰ یوگی اور وزیر اعظم مودی اس کانفرنس میں ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے نظر آئے حالانکہ اس کانفرنس میں یہ بھی طے نہیں ہواکہ کونسی اسکیم اور پروجیکٹ کس ضلع میں لگایا جائے گا۔
بی جے پی نے یوپی کے اسمبلی الیکشن کے موقع پر اپنا جو منشور جاری کیاکاتھا اس میں یہ کہا گیا تھاکہ ریاست میں جتنی بھی کمپنیاں ، ادارے اور صنعتیں قائم ہوں گی ان میں90فیصدریاست کے بے روزگار نوجوانوں کو کھپایا جائے گا۔ اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا یوگی حکومت نے سرمایہ کاری کانفرنس میں شریک صنعت کاروں سے اس قسم کاکوئی معاہدہ کیاتھا؟ ریاست کے کابینی وزیر سدھارتھ سنگھ نے دعویٰ کیاہے کہ اس بار60ہزارکروڑ کی سرمایہ کاری پر معاہدے ہوئے ہیںلیکن جس طرح پہلی انویسٹر کانفرنس میں سب کچھ خفیہ رکھاگیاتھا اس بار بھی وہی طریقہ کا ر اپنایاگیاہے ۔ شاید اسی سے کانگریس سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی نے اس کانفرنس کو شعبدہ بازی قرار دیا ہے ۔یہ بات سچ بھی ہے کہ مودی حکومت نے ملک میں بڑے صنعت کاروں اور کاروباری گھرانوں کے جتنے قرض معاف کئے ہیں اگر ان سے کوئی صنعت لگادی جاتی تو بہت سے بے روزگاروں کو روزگار مل جاتا۔ آج کاشت کار انہی قرض کی بوجھ سے گھبراکر خودکشی پر مجبور ہے جس قرض کی رقم سے سرمایہ داروں کو آزادی مل چکی ہے۔کسانوں کی قرض معافی میں بھی صنعت کاروں کے مقابلے انتہائی حقیر درجہ کی مالی مدد کے مساوی ہے۔ اب سوال یہ پید اہوتاہے کہ اس ملک ے عوام کا پیٹ کسان بھرتاہے یا ملک کے سرمایہ دار؟سوال یہ بھی ہے کہ کیاہندوستان امیروں کے ٹیکس سے چلتاہے ؟وزیر اعظم نے سرمایہ داروں کے دل کی بات کہہ دی کہ یہ ملک انہی کے پیسوںسے چلتاہے وہ لوگ حکومت کو جو ٹیکس دیتے ہیں اسی سے سارے کام ہوتے ہیں ۔غریب لوگ تو صرف سبسڈی لیتے ہیں مفت سہولیات کے لیے امیروں کے ٹیکس کو اڑاتے ہیں ۔ یہی کچھ نتائج حالیہ انویسٹر کانفرنس سے نکل کر باہر آئے حالانکہ حکومت کو جو ٹیکس ملتاہے اس کا سب سے بڑاحصہ انہی غریبوں اورمتوسط طبقہ کے جیبوں سے آتاہے ۔ وزیر اعظم نے اس کانفرنس میں جس طرح کسانوں اور غریبوں کو نیچادکھانے کی کوشش کی اس کا اپوزیشن نے برا مانا ہی ہے، خود کئی کسا ن تنظیموں نے اس کی مخالفت کی ہے۔ اس کی آمدنی دُگنی کرنے کا دعویٰ کرنے والے وزیر اعظم نے جو رویہ اختیارکیاہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ کسانوں کے بارے میں آج تک وہ جو کچھ کہتے آئے ہیں وہ ان کی انہیں تسلی دینے والی باتوں کی طرح ہیں۔جس میں اچھے دنوں کے آمدکے خواب دکھائے گئے تھے۔
پہلی کانفرنس کے وعدوں کی روشنی میں کاموں پر پردہ پڑاہواہے تو اس بار بھی کھل کر کوئی بات نہیں بتائی جارہی۔اس سے پتہ چلتاہے کہ نہ تو پہلے کچھ ہواتھا اور نہ اب ہی کچھ ہونے والا ہے۔یہ بات روزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ ریاستی و مرکزی حکومتیں نہ تو کوئی صنعت قائم کرپارہی ہیں اور نہ ہی سرمایہ داروں سے کوئی انویسٹ منٹ ہی کراپارہی ہیں ۔ان سب کا لکھنؤ باربار آنے کا مطلب صرف نششتن اور برخاستن تک محدود ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو وزیر اعلیٰ یوپی یوگی آدتیہ ناتھ خاموشی کے ساتھ ہندوستانی سفیروں سے رابطہ قائم نہ کئے ہوتے۔گذشتہ جون میں انہوںنے بیرونی ممالک میں تعینات ہند کے ہیڈآف مشن سے ملاقات کی ۔یوگی نے ان سے اپیل کی کہ وہ یوپی میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے بیرون ممالک میں تعینات ہندوستانی سفیروں کو متوجہ کریں وہ لوگ اس میں اہم رول اداکرسکتے ہیں ۔ ریاست میں تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے اچھے مواقع ہیں۔ یوپی حکومت سیاحت اور صنعت کو ایک خاص مذہبی نظریہ کے تحت فروغ دینے کا منصوبہ بناچکی ہے وہ غیر ملکی سرمایہ کاری کرانا چاہتی ہے ۔ اسی لیے اسے سرمایہ کار شاید نہیں مل رہے ہیں۔جیساکہ مالدیپ کے سفارت کار نے کہاکہ وہاں سے یوپی کے لیے سیاحت کا میدان وسیع کیاجاسکتاہے ۔ یہی بات برونائی میں ہندوستانی ہائی کمشنر نجمہ ایم ملک نے بھی کہی ۔ایتھوپیا میں تعینات انوراگ شری واستو نے کہاکہ یوپی میں موجود اچھے اسپتال وطبی ادارے بھی طبی ٹورزم کو فروغ دے سکتے ہیں۔عمان میں ہندوستانی سفیر اندرمنی پانڈے نے یوپی سے ایگروایکسپورٹ پر کام کرنے کا مشورہ دیا۔یہ ہے یوپی میں سرمایہ کاری کی تصویر جو ملکی سرمایہ داروں سے مایوس ہونے کے بعد اب غیر ملکی سفیروں سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔جتنا پیسہ گزشتہ برس کی کانفرنس پرخرچ کیاگیاہے اسی طرح اس باربھی خطیررقم خرچ کی گئی لیکن سرمایہ کاری کتنی ہوئی اس کی تفصیل ریاستی حکومت نے نہ پہلے بتائی تھی اورنہ اب بتانے کی زحمت کررہی ہے ۔
یہ کون نہیں جانتا ہے کہ کاروبار وہیں پھلتے پھولتے ہیں جہاں امن وسکون ہوتاہے یوپی کے لیے یہ بات جگ ظاہرہے کہ یہاں ان باتوں کافقدان ہے ۔ابھی دوسری سرمایہ کاری کانفرنس ختم ہی ہوتی تھی اور مہمان ابھی لکھنؤ میں مقیم تھے کہ گورنر ہاؤس کے قریب وی وی آئی پی علاقے میں دن دہاڑے ایک بینک کی کیش وین کولوٹ لیاگیا۔لٹیروں نے سرمایہ کاروں کویہ پیغام دے دیاکہ اترپردیش محفوظ نہیں ہے ۔کانفرنس میں وزیراعظم مودی اوریوگی نے یوپی کے ساز گار اورمحفوظ ماحول کے بڑے قصیدے پڑھے تھے جس کوبدمعاشوں نے غلط ثابت کردیا۔آج یوپی حکومت ان سب باتوں پرکوئی توجہ نہیں دیتی ہے البتہ مذہبی امور پروہ سخت ردعمل ظاہرکرتی ہے ۔اترپردیش میں یہ طے شدہ بات ہے کہ یہاں لڑکیاں محفوظ نہیں ہیں وزیراعظم کانعرہ ’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھا ؤ ‘کھوکھلاثابت ہوا ہے ۔کوئی بھی دن ایسا ریاست میں نہیں گزررہاہے جب کوئی عورت یا لڑکی خود کشی یاخودسوزی نہ کرتی ہو،وہ بھی بدمعاشوں کے ذریعہ پریشان ہوکر، اس کے بعد۔ انہیں بے دردی سے قتل کردیاجاتاہے ۔ہجومی تشد د سے یوپی قطعی پاک نہیں ۔ کاس گنج کافرقہ وارانہ فساد کے بعد جس طرح شہرکے اطراف میں فرقہ وارانہ تشدد ہوئے وہ سب کو پتہ ہے۔کہیں آنکھ پھوڑی گئی توکہیں دکانوں اورمکانات نذر آتش ہوئے ۔گذشتہ ماہ چندولی میں مغل سرائے کے پاس اقلیتی فرقہ کے ایک موضع کواکثریتی فرقہ کے ایک ہجوم نے اس لئے محاصرہ کرلیاتھا کہ ا نہیں شبہ تھا کہ اس گاؤں کے لوگ گائے کاگوشت کھاتے ہیں ۔بڑی مشکل سے گاؤں والوں کوبچایاجاسکا۔ایسے میں اس ریاست میں صنعت کافروغ کیسے ہوسکتاہے ؟کون ہے جواپنی دولت ایسے سماج میں صرف کرنے آئے گا۔جہاں عدم اعتماد عام ہواورسکون نام کی کوئی چیز ہی نہ ہو۔