سعودی عرب نے آخر کیا کردیا؟
سوسن الشاعر۔ الشرق الاوسط
تاریخ میں پہلی بار مغربی دنیا کے لبرل اپنے نظریہ کا خمیازہ بھگتنے پر مجبور ہوگئے۔لبرل ازم کے علمبردار ہمیشہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پوری دنیا انکے اصول اور انکی اقدار اپنائے۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ لبرل اقدار کو اغیار پر تھوپنا انکے فرائض میں شامل ہے۔
پہلی مرتبہ مغربی دنیا کے شہریوں کو اپنے اس موقف کی قیمت چکانا پڑی اور اپنے اس نظریہ پر اپنے حکمرانوں کا احتساب کرنا پڑ گیا۔
سعودی عرب نے اپنے اندرونی امور میں کینیڈا کی مداخلت پر جس ردعمل کا اظہار کیا وہ نہ صرف یہ کہ سعود ی عرب کی خاطر ضروری تھا بلکہ مغربی دنیا میں لبرل نظریات کو عام کرنے کے مفید ہونے کی بابت بحث چھیڑنے کی خاطر بھی ناگزیر تھا۔ یہ بحث امریکہ مغربی یورپی ممالک اور کینیڈا تک پھیل گئی ہے جہاں لبرل ازم کے علمبردار لبرل ازم کے مغربی تصور کے مطابق سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے اصولوں اور اپنی قدروں کے پرچار کے پابند ہیں۔ انکا خیال ہے کہ انکی قدریں بین الاقوامی ہیں اور دنیا بھر کے انسانوں کو انہیں قبول کرنا ہوگا۔
امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی ، سابق صدر باراک اوباما، ہیلری کلنٹن، کینیڈا کے وزیراعظم، فرانس کے صدر میکرون اور مغربی ممالک کے بہت سارے سربراہ اور رہنما لبرل ازم کے اس رجحان کے حامیوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ مغربی ادارو ںمیں بھی اس کی تائید کرنے والے موجود ہیں۔ بیشتر دفاتر خارجہ پر چھائے ہوئے ہیں۔ مغربی میڈیا میں بھی اس رجحان کے سرپرست پائے جاتے ہیں۔
لبرل ازم کے علمبردار سمجھتے ہیں کہ انکی اقدار کا پرچار فیصلہ کن امر ہے۔ دنیا بھر کی اقوام پر اسے تھوپا جانا ضروری ہے۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ جو لوگ لبرل ازم کی مخالفت کرتے ہیں وہ ایک طرح سے خارجی دنیا کے لئے اپنے روشندان بند رکھنے والے لوگ ہیں۔ یہ اپنے خول میں بند رہنا پسند کرتے ہیں۔لبرل ازم سے تعلق رکھنے والے ادارے اور جماعتیں کثیر تعداد میں ہیں۔ سیاسی جماعتیں متعلقہ ممالک میں موجود ایسے افراد کا شکار کرتے ہیں جو انکی سوچ سے متفق ہوتے ہیں۔ ان میں عرب ممالک کے افراد بھی شامل ہیں۔ لبرل ازم کے علمبردار چاہتے ہیں کہ انکے افکار اور انکی اقدار عام ہوں۔ وہ اس حوالے سے ہمنواﺅں کی تربیت بھی کرتے ہیں۔ جان بوجھ کر عرب دنیا کے مذہبی یا قومی یا اقلیتوں کا انتخاب کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر قبطی یا شیعہ یا ہم جنسوں کو اپنی جانب مائل کرتے ہیں۔
امریکی صدر ٹرمپ لبرل ازم کے علمبردار ا س رجحان کی مخالفت کرنے والے رہنماﺅں میں سے ایک ہیں۔ وہ عوامی دھارے کا پرچم بلند کئے ہوئے ہیں۔ اس دھارے سے منسوب افراد سمجھتے ہیں کہ ہر ریاست کو اپنی قوم کا حال زیادہ بہتر طور پر معلوم ہے۔ ہر ملک کا فرض ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے مفادات پر توجہ دے۔ ٹرمپ نے اسی تناظر میں اپنی انتخابی مہم کا نعرہ ” امریکہ سب سے پہلے “لگایا تھا۔ امریکی عوام نے اس نعرے کو پسند کیا ۔ ٹرمپ کا خیال ہے کہ حکومتیں اپنے عوام کے مفادات کی پاسداری کیلئے منتخب کی جاتی ہیں نہ کہ دیگر ممالک میں اپنی اقدار کے پرچار کےلئے۔
یہ دونوں دھارے ایک دوسرے کے حریف بنے ہوئے ہیں۔ دونوں میں سے کونسا بہتر ہے اس پر مباحثے چل رہے ہیں۔ یہ بات مدنظر رکھنا ہوگی کہ عوامی دھارے کو میڈیا میں وہ مقام حاصل نہیں جو لبرل ازم کے علمبرداروں کو نصیب ہے۔ یہ دھارا ہی لبرل ازم کے علمبرداروں کے مقابل آکر کھڑا ہوا ہے۔ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ لبرل ازم کے رجحان کو خود اپنے مرکز میں حقیقی آزمائش سے دوچار ہونا پڑا۔سعودی عرب نے کینیڈا کو طاقت کے بل پر اپنی اقدار کے پرچار کی قیمت چکانے پر مجبور کردیا۔
اب آپ کا کام صرف اتنا ہے کہ عوامی دھارے کے افکار پر ہونے والے مباحثوں پر نظر رکھیں۔ یہ مباحثے روس، چین، ہندوستان وغیرہ میں ہورہے ہیں۔ سعودی عرب کے پہلے اورمنفرد فیصلے کی بدولت اس دھارے کے علمبردار اپنا نقطہ نظرثابت کرنے کیلئے میدان میں کود پڑے ہیں۔ یہ مغربی دنیا کے اس دھارے کی ترجمانی کررہے ہیں جس کے علمبرداروں کا کہناہے کہ ہمیں اپنے عوام کے مفادات کو دیکھنا ہے۔ یہ ہمارا فرض ہے۔ دوسروں کے اندرونی امور میں مداخلت کرکے اپنی اقدار کا پرچار ہمارے فرائض میں شامل نہیں۔ سعودی عرب نے امریکہ، یورپ اور کینیڈا سب ممالک کو واضح پیغام دیدیا کہ تمام عرب اسی جیسا نکتہ نظر رکھتے ہیں او رکوئی بھی عرب ملک اپنے داخلی امو رمیں مداخلت برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭