صدر ٹرمپ کے جرنیلوں کی سفارتکاری
عبدااللہ الجنید۔ مکہ
جنرل جوزف فورٹیل جنوری 2016ءسے امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر ہیں۔ انکا انتخاب عسکری اور شہری اداروں کے درمیان عبوری دور کی نزاکت کے پیش نظر دونوں اداروںکی ہم آہنگی کا نتیجہ ہے۔ فوجی جنرل کو سیاسی مہم تفویض کرنا امریکہ کی سیاسی روایت کا نیا واقعہ نہیں۔ یہ دراصل نئی سیاست کے اعلان یا انتہائی نازک سیاسی موقف کو کنٹرول کرنے کی ایک کوشش ہے۔ جنرل مذکور نے خلیجی ممالک اور مصر و اردن کے چیفس آف اسٹاف سے کویت میں ملاقات کرکے متعدد پیغامات پہنچائے۔ پہلا پیغام عرب نیٹو کے تصور کو زندہ درگور کرنااور امریکی خلیجی سربراہ کانفرنس کے فیصلوں کو ختم کرنا تھا۔ یہ دونوں افکار خلیجی بحران کے حل کی کلید کے طور پر بعض خلیجی فریقوں کی جانب سے پیش کئے گئے تھے۔ ان افکار کے باعث سعودی عرب اور امریکہ میں موجود سردمہری میں اضافہ ہوگیا تھا۔
جنرل فورٹیل کی یہ پہلی سفارتی مہم نہیں تھی۔ انہیں اس سے قبل سابق صدر اوبامہ کے دور صدارت میں امریکی خلیجی تعلقات کے اہم موڑ پر ایک او رمہم کیلئے منتخب کیا گیا تھا۔ جہاں تک موجودہ امریکی صدر ٹرمپ کی حکومت کا معاملہ ہے تو ایسا لگتا ہے کہ نئی انتظامیہ” لنگڑی بطخ“ کی جگہ لینے جارہی ہے۔ صدر ٹرمپ دوبارہ منتخب ہونے کےلئے بڑی حد تک یکسو ہونے پر مجبور ہیں۔ وہ ڈیموکریٹک ممبران کی اکثریت والی کانگریس سے دو ، دو ہاتھ کرنے کیلئے بھی یکسوئی کے محتاج ہیں۔ علاوہ ازیں بہت سارے بڑے مسائل ایسے ہیں جن سے نمٹنے کیلئے انہیں خصوصی جدوجہد کرنا ہوگی۔ ان میں سب سے پہلے نومبر کے شروع سے ایران پر عائد کی جانے والی نئی پابندیوں کا معاملہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جنرل فورٹیل کا حالیہ دورہ خلیج ایک طرح سے عرب نیٹو اور خلیجی سربراہ کانفرنس میں شریک خلیجی فریقو ں سے صدرٹرمپ کے عہد و پیمان سے مناسب شکل میں سیاسی راستہ پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ عرب نیٹو ہو یا خلیجی سربراہوں سے امریکہ کے وعدے ہوں، سعودی عرب نے ان دونوں میں سے کسی کو قبول نہیں کیا تھا۔ اس طرح صدر ٹرمپ کو نازک پوزیشن سے نکلنے کی راہ مل گئی ہے۔ دوسری جانب صدر ٹرمپ نے اپنے وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کو ایران پر عائد کی جانے والی پابندیوں سے رونما ہونے والے اثرات کو قابو کرنے کی مہم تفویض کی ہے۔ یہ پابندیاں ایسے عالم میں نافذ ہونگی جب ایران اور عراق عدم استحکام کی صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ امریکہ کی کوشش ہوگی کہ پابندیاں سرحد پار بحرانوں کی شکل اختیارنہ کریں، اس کےلئے امریکہ کو سعودی عرب کے ساتھ مکمل ہم آہنگی پیدا کرنا ہوگی۔
ایران اور دہشتگردی کویت سے امریکی انتظامیہ کے پیغام کا جوہر تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کو ایرانی خطرات سے نمٹنے کے سلسلے میں دو ٹوک طریقہ کار اپنانا ہوگا۔ اس حوالے سے انہیں سب سے پہلے یمنی تنازع کو دیکھنا ہوگا۔ جہاں تک درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے بحرانوں پر قابو پانے والا معاملہ ہے تو اس سلسلے میں امریکہ کو قطر کے ساتھ بحران سے مکمل طورپر الگ رکھنا ہوگا۔ قطر بے شک خلیج کا حصہ ہے لیکن انسداد دہشتگردی کے علمبردار ممالک کی جانب سے قطر کے بائیکاٹ کے بعد صورتحال بدل گئی ہے۔ قطر جی جی سی کا مکمل رکن ہے۔اس بنیاد پر اسے دفاعی اور سیکیورٹی کمیٹیوں میں شرکت سے محروم نہیں کیا گیا۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بائیکاٹ کرنے والے خلیجی ممالک قطر کے امن و استحکام کو خطرات لاحق ہونے کی صورت میں اس سے دستبردار ہوجائیں گے، وہ لوگ غلطی پر ہیں۔ امریکی موقف کا انوکھا پہلو یہ ہے کہ قطر نے مارچ میں دہشتگردی سے متعلق جو فہرست جاری کی تھی ٹرمپ انتظامیہ نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ علاوہ ازیں دہشتگردوںاور دہشتگردی کی فنڈنگ کرنے والے اداروں کے حوالے سے قطر کی جانب سے کوئی اقدام نہ کرنے پر بھی اس سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوئی۔ ہم امریکہ کے عسکری ادارے کے عزائم کے حوالے سے شکوک و شبہات ظاہر نہیں کررہے ۔ ہمیں مشترکہ قومی سلامتی کو خطرات پیدا کرنے والی طاقتوں کی نشاندہی کی بابت جنرل فورٹیل کے تصور سے اتفاق ہے البتہ تشویش کا پہلو یہ ہے کہ امریکہ میں آنے والی پے درپے حکومتیں مشرق وسطیٰ کی بابت اسٹراٹیجک تصور بدلتی رہتی ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کی جانب سے مشترکہ قومی سلامتی کے تصور سے عدم اتفاق کی بنیادی وجہ یہ ہو کہ ہم نے اپنے اسٹراٹیجک مفادات کے تحفظ پرحقیقی سیاسی منصوبہ مناسب شکل میں پیش نہیں کیا لہذا خلیجی ممالک کا فرض ہے کہ وہ اپنے علاقائی دفاعی نظام (الجزیرہ شیلڈ ) کو جدید خطوط پر استوار کرے اور اسکے ساتھ عرب ممالک کے ساتھ اپنے دفاعی تعلقات نئے انداز میں ترتیب دے۔ سعودی عرب اور امارات نے الجزیرہ شیلڈ کے تحت اپنی فوجی طاقت اور قومی عزائم کے حوالے سے بہترین مثال قائم کی ہے۔ یہ دونوں چیلنجوں سے نمٹنے اور بحرانوں کا مقابلہ کرنے کی اپنی صلاحیت دکھاچکے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭