سعودی عرب کا اصولی اور فیصلہ کن جواب
امیل امین ۔ الشرق الاوسط
امریکہ کے مشہور جنگی جہاز ”یو ایس ایس کوئنسی“ پر مصر کے المرة سمندری علاقے میں امریکی صدر فرینکلین روز ویلٹ او ربانی مملکت شاہ عبدالعریز آل سعود کی ملاقات پر امریکی سعودی تعلقات استوار ہوئے تھے۔ تب سے تمام سطحوں پر دونوں ملکوں کے تعلقات روز افزوں ہیں۔ بہت سارے علاقائی اور بین الاقوامی مسائل پر دونوں ملکوں کے درمیان یکجہتی پائی جاتی ہے۔ سعودی عرب نے ہر دور میں اپنے فیصلے خود کئے۔ آج بھی کررہا ہے۔ کل بھی کریگا۔ اس حوالے سے سعودی عرب نے نہ کبھی کسی کو اپنے فیصلوں پر مسلط کیا ہے اور نہ ہی کریگا۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ برطانوی شہنشاہئیت کے وارث اعلیٰ کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ تب سے امریکہ اور سعودی عرب کی دوستی چل رہی ہے۔ سعودی عرب سے دوستی کا مطلب دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمانوں کیساتھ دوستی کے ہم معنی ہے۔ اسی کے ساتھ مملکت کے ساتھ دوستی کا مطلب یہ بھی ہے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں تیل سے مالا مال ریاست کو اپنا حلیف بنائے ہوئے ہے۔
سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات میں نشیب و فراز بھی آئے۔ اسرائیل کی جابجا مدد پر دونو ںملکوں میں کشیدگی آتی جاتی رہی۔ 1967ءکی جنگ نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو کشیدہ کیا۔ سعود ی عرب نے اکتوبر 1973ءکی جنگ میں انتہائی اہم کردارادا کیا۔ شاہ فیصل رحمتہ اللہ علیہ نے تیل کی برآمد معطل کردی۔ پیداوار گھٹا دی۔ اسکے باوجود دونوں ملکوں نے اختلافات کے دائرے کو محدود رکھنے کا اہتمام کیا۔ اس سے مشترکہ تعاون کو متاثر نہیں ہونے دیا۔
میں نے امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے سعودی عرب کی بابت تہلکہ خیز بیان اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے فیصلہ کن جواب کی وضاحتوں کی تمہید کے طور پر یہ سطورتحریر کیں۔
ہمارا واسطہ امریکہ کے ایسے صدر سے ہے جن کی بابت یہ مشہور ہوچکا ہے کہ وہ کبھی بھی کچھ بھی کہہ سکتے ہیں اورکوئی بھی اقدام کرسکتے ہیں۔ حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب” الخوف “ کے مصنف نے واضح کیا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ میں شامل عہدیدار ٹرمپ کے غیر متوقع بیانا ت اور غیر اصولی تعبیرات سے مسلسل مخمصے میں رہتے ہیں۔ اس سے قطع نظر سعودی عرب سے متعلق صدر ٹرمپ کے نامناسب بیان کا جامع مانع جواب دیا جانا ضروری تھا۔ جواب جذباتی نہیں بلکہ ایسا مدلل جو امریکی رائے عامہ کو اپیل کرے۔ جواب ایسا کہ ریاستی اداروں کے مالک ملک امریکہ کے یہاں اسے اہم اور فیصلہ کن درجہ حاصل ہو۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے جواب دیتے وقت فیصلہ کن لہجہ اپنایا۔ دونوں ملکوں کے تعلقات کے مضبوط رشتے برقرار رکھنے کا عزم بھی ظاہر کیا۔ البتہ مملکت کے خلاف زبان درازی کا جواب دینا بھی ضروری قرار دیا۔ فیصلہ کن اصولی فوری جواب ضروری تھا۔ امریکہ میں اپنی تصویر بہتر شکل میں پیش کرنا امریکی معاشرے کیلئے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر آپ نے من پسند تصویر مرتسم کرنے میں پہل نہ کی تو دوسرے لوگ آپ کی تصویر اپنے انداز میں مرتسم کردیں گے۔ محمد بن سلمان نے صدر ٹرمپ کے نکات کا مدلل جواب دیا۔ انہوں نے صدر اوباما کے دور کو جسے ابھی 2برس بھی نہیں گزرے تھے مثال کے طور پر پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ سابق اوباما نے 8سالہ دور اقتدار میں عرب دنیا کے حصے بخرے کرنے اور سعودی عرب کے مفادات کو نقصان پہنچانے میں کوئی کمی نہیں کی۔ اس کے باوجود سعودی عرب مضبوط پہاڑ کی طرح اپنی جگہ جما رہا اور اوباما امریکہ سمیت عالمی منظر نامے سے گم ہوگئے۔
سعودی ولی عہد نے صدر ٹرمپ کو یہ حقیقت بہت اچھی طرح سے یاد دلائی کہ اوباما اور انکی ہمنوا غدار عرب جماعتوں نے مصر کے امن و استحکام کو متزلزل کرنے کی لاکھ کوشش کی تاہم لاکھوں مصریوں نے 30جون 2013ء کو سڑکوں پر نکل کرمصر کے امن و استحکام کو متزلزل کرنے والی حکومت کا دھڑن تختہ کردیا۔محمد بن سلمان نے یہ بھی یاد دلایا کہ سعودی عرب جو اربوں ڈالر کے اسلحہ امریکہ سے خریدتا ہے اس سے امریکی اقتصاد کو سہارا ملتا ہے۔ وہاں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ عام امریکی اس سے فیض یاب ہورہے ہیں۔ اسکاواضح مطلب یہ ہے کہ امریکہ سعودی عرب کو جو کچھ دے رہا ہے وہ احسان کے دائرے میں نہیں آتا بلکہ عالمی سطح پر رائج نظام کے تحت خرید و فروخت کے زمرے میں آتا ہے۔
صدر ٹرمپ، انکے مشیران اور ان کے ذہن سازوں کو یہ بتایا جانا ضروری ہے کہ اب دنیا امریکہ پسند نہیں رہی۔دنیا پر امریکی اجارہ داری ہمیشہ کیلئے رخصت ہوگئی ہے۔ روس اور چین خلیجی ممالک، مشرق وسطیٰ ، افریقہ اور ایشیا میں امریکی اثر و نفوذ کو چیلنج کررہے ہیں۔ دنیا ایک بار پھر کثیر قطبی نظام کی جانب بڑھ رہی ہے۔ نئے نظام کے جنم لینے کا وقت قریب آچکا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭