کرپٹ الیون بمقابلہ کپتان الیون!!!
جمعرات 11 اکتوبر 2018 3:00
***سجاد وریاہ ۔۔۔الخبر***
پاکستان میں موسم گرما کی شدت تو دم توڑ چکی لیکن سیاسی درجہ حرارت ہے کہ سیاسی’ تھرما میٹر‘ کے اونچے ترین درجے کو چھو رہا ہے۔پاکستان ایک خوبصورت جنت نظیرسر زمین ہے لیکن اس کی بد قسمتی یہ ہے کہ حکمران بددیانت، مداری اور خود غرض ہی اس کا مقدر بنتے رہے ہیں۔پاکستان کے حکمرانوں میں بینظیر بھٹو ہی وہ شخصیت تھیں جو قابل اور نظریاتی تھیں۔عوام اور میڈیا کی نظر میں اپنے امیج کا خیال رکھتی تھیں ۔ نواز شریف اور زرداری تو کرپشن میں’ مقابلے ‘کے بانی ہیں۔ نوازشریف نے تو باقاعدہ کرپشن کو کاروبار کا نام دیا۔ قائداعظم محمد علی جناح او ر نواب زادہ لیاقت علی خان نے کیا صاف ستھری سیاست کی بنیاد رکھی، ان کے پیروکار بھی مالی کرپشن سے کوسوں دور رہے۔ پرانے سیاستدان اپنے خرچے پر سیاست کرتے تھے، اپنی جائیدادیں بیچ دیتے لیکن کرپشن نہیں کرتے تھے۔بڑے خاندانوں کے بڑے لوگ تھے،اعلیٰ کردار اور شرافت کی سیاست ان کا شیوہ تھا۔نواب زادہ نصراللہ خان ،ریاض حسین پیرزادہ،غوث علی شاہ اور ڈاکٹر شیرافگن مرحوم سمیت کئی محترم نام آج بھی ہیں جو خود کو کرپشن سے بچانے میں کامیاب رہے۔ان نیک نام سیاستد انوں نے اپنی زمینیں بیچ ڈالیں اور سیاست کا ’چسکا‘پورا کرتے رہے۔
پاکستان کے ایک بڑے اخبار’’ خبریں ‘‘ کے چیف ایڈیٹر ضیاء شاہد نے کچھ عرصہ قبل ’’خبریں ‘‘ میں اپنی یاداشتوں کی سیریز شائع کی جس کا عنوان تھا ’’میرا دوست،نواز شریف‘‘۔اس قسط وار یاداشتوں کے سلسلے کو میں باقاعدہ دلچسپی سے پڑھتا رہاکیونکہ اس میں ضیا شاہد نے نواز شریف سے اپنی دوستی اور محبت کے عروج و زوال کو بیان کیا ہے ،جس میں بعض مقامات پر ضیا صاحب جذباتی بھی ہو جاتے ہیں لیکن نواز شریف سے خلوص و محبت اس تحریر میں جا بجا نظر آتا ہے۔اس دوستی کے اختتام کا منظر یو ں بیان کرتے ہیں’’ہماری بحث اور بڑھنے لگی ،میں نے کہا میاں صاحب! آپ مجھ سے زیادہ نمازی،عبادت گزارہیں،زکوٰۃ دیتے ہیں ،خیرات کرتے ہیں۔ہر رمضان میں آخری عشرہ سعودی عرب میں گزارتے ہیں ،غریبوں کی بہت زیادہ مدد کرتے ہو،ظاہری نیکیوں میں ،میں آپکے سامنے کچھ بھی نہیں ۔ظاہری دین داریوں کے اعتبارسے میں آپکے قدموں کے برابر بھی نہیںمگر نوازشریف! حلال و حرام کے درمیان جو ہلکی سی لکیر ہے وہ آپ کو نظر آتی ہے ؟نواز شریف بہت کم غصے میں آتا ہے۔ لگتا تھا کہ اس کے صبر کاپیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔وہ اٹھا اور کہا :ضیاء صاحب! کھڑے ہو جائو۔میں خاموشی سے کھڑا ہو گیا۔میں نے کہا کہ میرا دوست ایک سافٹ آدمی ہے،اس نے کہا آئو جپھی پاؤ،میں نے جپھی ڈالی ،تب نواز شریف کے منہ سے وہ الفاظ نکلے جو مجھے آج تک یاد ہیں اور شاید مرتے دم تک یاد رہیں گے۔اس نے کہا: ضیا صاحب ! اج توںتہاڈی میری دوستی ختم،نہ میں تہاڈے نال گل کراں گا ،نہ تسی میرے نال کرنا،نہ میں تہاڈی صحافت وچ دخل دینا ،نہ تسی میری سیاست وچ دخل دیو‘‘۔اس واقعے کا حوالہ دینے کا مطلب یہی ہے کہ نواز شریف نے کرپشن کے عروج تک پہنچنے کے لیے اپنے راستے میں آنے والے کسی بھی دوست ،مہربان اور خیرخواہ کو برداشت نہیں کیا ۔سیاست میں پلاٹس بانٹنے اور عہدوں پر وفاداروں کی فوج ظفر موج بٹھانے کی رسمِ مکروہ بھی جناب قائد اعظم ثانی کی ہی ایجاد ہے۔اس سے پہلے شاید چھپ چھپا کے یہ دھندا ہو رہا ہو لیکن انہوں نے باقاعدہ اس کو سرکاری چھتری کے سائے میں اپنے تئیں قانونی بنا لیا۔غیرقانونی قبضے اور منی لانڈرنگ نے باقاعدہ سیاست میں اہمیت اختیار کر لی۔قبضہ مافیا نے سیاسی جلسوں کے انتظامات اور اخراجات اپنے سر لے لیے۔تا حیات قائد نے اپنی کرپشن کی خاطر کئی ہوشمند اور مخلص دوست قربان کر دیے ،کئی غوث علی شاہ،ظفر علی شاہ ،قائد کی انا کی بھینٹ چڑھ گئے۔مشاہداللہ خان،دانیال عزیز اور مشاہد حسین،اسحاق ڈار جیسے آنکھوں کا تارا بن گئے۔
آصف علی زرداری کی شہرت ’مسٹر ٹین پرسینٹ ‘کے موجد بھی آل شریف ہی ہیں لیکن زرداری صاحب نے بھی ان کے طعنوں کی لاج رکھ لی۔ انہوں نے کرپشن کے میدان میں ایسے گھوڑے دوڑائے کہ سندھ کے غریبوں کے نام پر اکاؤنٹ کھولنے کا بیڑا اٹھا لیا ،اب سندھ کے لوگ خوش ہیں کہ ان کے غریب شہریوں کے اربوں کروڑوں کے کھاتے کھل رہے ہیں ،اب تو سندھ ضرور ترقی کرے گا۔ان عظیم لیڈروں نے غریب فالودہ فروش ،ریڑھی بان اور معمولی ملازمین کے کروڑوں کے کھاتے کھول دیے ہیں ۔ ’بھٹو زندہ ہے ‘کا نعرہ لگاتے رہے اور سب زرداری بھٹو کی کمائی کھا رہے ہیں،جو کرپشن کا مال کھا رہے ہیں ان میں ایک بھی بھٹو خاندان کا فرد نہیں ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ خود کو زرداری بھٹو کہلوانا پسند نہیں کرتے۔ انکے بعد اسفندیار ولی کا خاندان کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں پیچھے نہیں رہا ۔
الطاف حسین بھی پاکستان کی سیاست کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ تھا ۔یہ تمام محترم سیاسی قائدین آج کل اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں،اپنی کرپشن کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں،یہ سب ایک دوسرے کو چور ،ڈاکو قرار دیتے رہے ہیں لیکن آج انہوں نے ’کرپٹ یونین‘ قائم کر لی ہے ،یہ کرپٹ یونین اب آہستہ آہستہ’ کرپٹ الیون ‘کی شکل اختیار کر چکی ہے۔اس کرپٹ الیون کو آجکل’ کپتان الیون ‘کی طرف سے جارحانہ باوٗنسرز کا سامنا ہے۔
کپتان الیون کے فاسٹ بولر فواد چوہدری کی تیز رفتاربولنگ نے کرپٹ الیون کے’ تجربہ کار بلے بازوں‘ کو ناکوں چنے چبوا دیئے ہیں ۔کرپٹ الیون پہ ایسا خوف بیٹھا ہے کہ فواد چوہدری ابھی ’’میدان ‘‘ میں قدم ہی رکھتا ہے کہ کرپٹ الیون شور مچا نا شروع کر دیتی ہے کہ یہ بہت مارتا ہے۔کپتان ہے کہ خود بھی کوئی لحاظ نہیں ،ابھی کل ہی کہہ رہا تھا کہ کسی’ چور ڈاکو ‘کو نہیں چھوڑوں گا ،یہ منطق سمجھ نہیں آئی وہ جب بھی چور ڈاکو کا نام لیتا ہے ،نواز شریف ،شہباز شریف،زرداری ،خورشید شاہ،فضل الرحمان اور اسفند یار ولی کو بہت تکلیف پہنچتی ہے اور شور مچاتے ہیں۔ان کے اس ردعمل سے یہ ثابت ہو تا ہے ،یا تو یہ خود چور ہیں یا پھر چوروں کے حمایتی اور حصہ دار ہیں۔اپنے محبوب قائد سراج الحق کو تو میں بھول ہی گیا ،ویسے بہت معصوم شخصیت ہیں ،ان کا ہی فرمان ہے کہ نواز شریف کو ’’کرپٹ‘‘ ثابت ہم نے کروایا ہے لیکن اگر ان کرپٹ لوگوں کو سزا دی گئی تو ہم کرپٹ الیون کے ساتھ ہو نگے۔
میں سمجھتا ہوں کرپٹ الیون اپنے کردار اور کرپشن کے بوجھ تلے دبی ہے ،سعد رفیق نے مال بنایا اور اب ہیرو بنتا ہے۔قوم ان لوگوں کو سمجھ چکی ہے ،ان کے جھانسے میں نہیں آئیگی۔کرپٹ الیون کے تمام کھلاڑی تجربہ کار اور صاحبِ وسائل ہیںلیکن کپتان الیون کے نئے اور غیر تجربہ کار کھلاڑیوں کے سامنے درختوں کے خزاں رسیدہ پتے ثابت ہو رہے ہیں۔میں سمجھتا ہوں یہ عمران خان کے شفاف کردار اور جاندار قیادت ہے کہ تجربہ کار کرپٹ الیون بوکھلا گئی ہے۔میں امید کرتا ہوں کہ کپتان الیون کامیاب ہو لیکن قانون اور انصاف کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہو ئے احتساب ہونا چاہئے۔ناجائز اثاثے بنانے والوں کو پوچھا جانا چاہیے۔