Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اساتذہ قابلِ احترام ،مگر!!!

***سجاد وریاہ***
جناب اشفاق احمد بیان کرتے ہیں کہ روم میں انکا ٹریفک چالان ہو گیا ۔مصروفیت کے باعث ان کو چالان بھرنے میں تاخیر ہو گئی ۔انہیں گرفتار کر کے عدالت کے سامنے پیش کیا گیا ۔جج صاحب نے پو چھا کہ آپ نے قانون کی خلاف ورزی کی اور پھر چالان بھی ادا نہیں کیا ،کیوں؟ اشفاق صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ میں یونیورسٹی پرفیسر ہوں اور مصروفیت کی بنا پر وقت پر چالان ادا نہیں کر سکا ۔ اشفاق صاحب کہتے ہیں کہ میرے یہ الفاظ ادا کرنے کی دیر تھی کہ جج صاحب’’A teacher in the court ‘‘کا نعرہ لگاتے ہو ئے کھڑے ہو گئے اور ان کیساتھ عدالت میںموجود سب لوگ کھڑے ہو گئے ،مجھے کرسی پیش کی گئی اور چالان معاف کردیا گیا اور عدالت میں لائے جانے پر معذرت کی گئی۔اشفاق صاحب فرماتے ہیں کہ اسوقت مجھے یہ نقطہ سمجھ آیا کہ ان ممالک کی ترقی کا راز یہ ہے کہ وہ لوگ استاد کا احترام کرتے ہیں۔ اشفاق صاحب کو اللہ پاک غریق رحمت کرے ،کروٹ، کروٹ جنت نصیب کرے ،ان جیسا عظیم استاد ،اعلیٰ درجے کا مفکر اور مدبر تو کسی بھی معاشرے کے ماتھے کا جھومر ہوتا ہے ،ان کیلئے محبتیں نچھاور کرنا اور عقیدتیں پیش کرنا تو فرضِ عین ہوتا ہے۔
چند دن قبل پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر مجاہد کامران کو غلط بھرتیوں اور اختیارات کے تجاوز کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور اگلے دن انکو احتساب عدالت میں ہتھکڑی لگا کر پیش کیا گیا۔ مجاہد کامران صاحب پنجاب یونیورسٹی کے طاقتور ترین وائس چانسلر رہے ہیں ۔وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اچھے منتظم بھی ہیں لیکن بد قسمتی سے انکی اخلاقی شہرت کئی حوالوں سے مثالی نہیں رہی۔ان پر کرپشن، ہراساں کرنے سمیت میرٹ سے ہٹ کر تعیناتیاں کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔انکے سیاسی گٹھ جوڑ اور یونیورسٹی میں مضبوط پوزیشن کے باعث انکو کبھی پوچھا نہیں گیا۔ایک خاتون استاد خجستہ ریحان نے ان کیخلاف کیس کر دیا کہ انہوں نے  بلیک میل کیا ہے ،لیکن انکی شنوائی نہیں ہوئی ۔ڈاکٹر مجاہد کامران نے اپنی بیوی سعدیہ قریشی کو ناجائز مراعات دیں اور میرٹ سے ہٹ کر عہدہ دیا۔اسی طرح ڈاکٹر مجاہد کامران کی موجودگی میں ہی اساتذہ کی جانب سے طالبات کو ہراساں کیے جانے کے کئی واقعات ہوئے لیکن انتظامیہ نے ان پر ایکشن لینے کی بجائے ان کو دبانے کی کوشش کی اور ان اساتذہ کیخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔اسی طرح کے واقعات کا ذکر تسلسل سے بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے اساتذہ کے حوالے سے اخبارات میں پڑھنے اور سننے کو ملتا رہا ۔اساتذہ کس طرح اپنے ناجائز تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے طالبات سے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں ۔کراچی یونیورسٹی میں ایسے واقعات میڈیا کی زینت بن چکے ہیںلیکن کوئی عدالت ،کوئی حکومت اور کوئی ادارہ حرکت میں نہیں آیا ۔کسی نے سوال نہیں پوچھا کہ استاد کی اخلاقی گراوٹ کو کیا ہو گیا لیکن جب کبھی ان کو قانون کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو یہ ’’مقدس گائے‘‘ کا روپ دھار لیتے ہیں۔پاکستان میں المیہ یہ ہے کچھ اداروں کے لوگ طاقت کی بنیاد پر اور کچھ مفروضات کی بنا پر’ ’مقدس گائے ‘‘ کا روپ دھار لیتے ہیں،ان کو کوئی پوچھ نہیں سکتا ،ان سے سوال کرنا بعض اوقات ’’بہت بڑی توہین‘‘ سمجھا جاتا ہے ۔اسکی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔
  مجاہد کامران کو جب عدالت میں پیش کیا گیا تو میڈیا میں طوفان بپا ہو گیا کہ سابق وائس چانسلرکی توہین ہوئی ہے کہ اسکو ہتھکڑی میں پیش کیا گیا ۔میں سمجھتا ہوں کہ مناسب ہوتا کہ انکو باعزت طریقے سے ڈیل کیا جاتا لیکن اگر کوئی استاد مجرم ہے ،ملزم ہے تو کیا ہو گیا کہ اس کو ہتھکڑی لگا دی گئی۔جب یہ استاد ،اپنے اختیارا ت اور پوزیشن کا ناجائز استعمال کر رہا تھا ،تب اس نے اپنے مقام و مرتبے کا خیال کیوں نہیں کیا ؟تب اسنے خود اپنی توہین کا جواز پیش نہیں کر دیاجب یہ خاتون استاد کو تعلقات کی دعوت دیتا رہا ۔یہ تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ مجاہد کامرا ن نے اپنے سیاسی تعلقات کو مضبوط بنا رکھا تھا جس کی وجہ ان کیخلاف کوئی بھی الزام ،کوئی معنیٰ نہیں رکھتا تھا ۔مجھے صرف یہ سوال کرنا ہے کہ کیا مجاہد کامران نے خود اپنی توہین نہیں کی جب انہوں نے ایسے الزامات کا جواب دینے کی بجائے انکو دبا دیا ۔مخالف کو ڈرانے کی کوشش کی۔
ایک دلچسپ منظر دیکھنے کو ملا کہ سوشل میڈیا پر بھی استاد کی توہین کے حوالے سے مہم چل پڑی اور اشفاق صاحب کا مذکورہ واقعہ بار بار بیان کیا جاتا رہا ۔میں کہنا چاہتا ہوں ’’کہاں راجہ بھوج،کہاں گنگو تیلی‘‘ ۔یہ استاد بد دیانتی کے مرتکب ہوں،اخلاقی جرائم میں ملوث ہوں ، ان کو شرم نہ آئے لیکن جب ان پر قانون کا ہاتھ پڑے تو ان کو استاد کے تقدس کا خیا ل ستاتا ہے،یہ’’ مقدس گائے‘ ‘ کا روپ دھار لیتے ہیں۔یہ بہت زیادتی ہے اور خطرناک مہم چل پڑیگی۔ جو بھی مجرم ہو گا وہ کسی نہ کسی محکمے کی’ ’مقدس گائے‘‘بنتا رہے گا ۔یہ روایت اب ختم ہونا چاہئے۔میں سمجھتا ہوں کہ اساتذہ کے روپ میں جو مجرمین ہیں ان کو ایکسپوز ہونا چاہیے۔میں نے خود ایسے نام نہاد اساتذہ دیکھے ہیں جو زمین کے قبضوں میں ملوث ہیں،کئی استاد مالی کرپشن میں ملوث ہیں،کئی استاد محترم ایسے ہیں جو غریبوں کا پیسہ مختلف طریقوں سے کھا چکے ہیں، واپس نہیں کرتے۔کیا یہ لوگ خود استاد کے منصب کی توہین کے مرتکب نہیں ہو رہے؟
دراصل گزشتہ3 دہائیاں ہر لحاظ سے زوال کا شکار رہی ہیں ۔سیاست،صحافت،عدلیہ اور ادارے غرضیکہ کوئی بھی زوال کی چلنے والی آندھی سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکا،ہر شعبے میں اعلیٰ کردار کا فقدان عروج پر ہے۔کئی مجرم ہیں جو اساتذہ کا روپ دھارے ہوئے ہیں،کئی گھو سٹ اساتذہ ہیں جو کام کیے بغیر تنخواہیں لیتے رہتے ہیں ،کیا یہ استاد کے تقدس کے عین مطابق ہے؟بعض اساتذہ ایسے ہیں جو اسکولوں ،یو نیو رسٹیوں اور کالجوں میں’ ’یونین لیڈر‘‘ بنے رہتے ہیں جنکا کام سیاست کرنااور تنخواہیں وصول کرنا ہے۔ انکو تعلیم و تربیت سے مطلب نہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر استاد نے اپنا احترام اور وقار برقرار رکھنا ہے تو اس کو بھی خو د کو استاد ثابت کرنا پڑے گا ،پراپرٹی ڈیلر ی اور دلالی چھوڑنی ہو گی۔پنجابی کی ایک کہاوت ہے ’’جب ککھ نہیں بچدا ،فیر ککھ بچدے نیں‘ یعنی جب اپنے اصولوں ،اپنے پروفیشن اور کام کے لیے ٹھیک ٹھاک قربانی دی جاتی ہے تو تب جا کے قبولیت ملتی ہے،جب کو ئی سراہتا ہے ،تب مقام ملتا ہے ،تب احترام نصیب ہوتا ہے۔کسی نے بجا طور پر کہا ہے کہ ’’عزت کمانا پڑتی ہے‘‘بھیک میں نہیں ملتی۔ایسے نہیں ہوگا کہ آپ وائس چانسلر بن جائیں تو اختیارات کا ناجائز استعمال کریں ،اپنے گروپ کو مضبوط بنائیں ،خواتین سے رومانس کی کوشش کریں ،مالی فوائد سمیٹیں ،حکمرانوں کی خوشامد سے اپنی سیٹ پکی کرتے رہیں ،جب آپ کو پوچھ لیا جائے کہ آپ نے تجاوزات کیوں کیں تو آپ کے حواری ،نمک حلالی کرنا شروع کر دیں ۔استاد کااحترام یاد آجائے۔استاد اگر اپنا احترام نہیں کرے گا ،عہدوں کی خاطر چاپلوسی کرے گا تو تب استاد کی عزت برقرار رہتی ہے؟میںاپنے استادوں کا بھر پور احترام کرتا ہوں، میرے استاد علم و عمل کے اونچے مینار تھے،سادہ زندگی ،سادہ باتیں اور باعمل لوگ،کہ ان کے سامنے سر احترام میں جھک جائے۔آج زوال کا سبب ،استاد خود بھی ہے ،عوامل اور بھی ہو سکتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے جہاں ہر جگہ رہبروں کے روپ میں رہزن ہر جگہ گھسے ہوئے ہیں اس طرح کچھ کالی بھیڑیں استادکے مقام کو بھی تباہی تک پہچانے میں استاد ہی کا روپ دھارچکی ہیں۔ 
 

شیئر: