Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی اسٹاک مارکیٹ اور بینکوں کی حالت

کراچی ( صلاح الدین حیدر)وزیر اعظم عمران خان نے3 ممالک کا دورہ شروع کردیا ۔وہ سعودی عرب، ملیشیاء اورپھر چین جائیںگے، انہیں یقین ہے کہ دوست ممالک سے امداد حاصل کرکے معیشت کو سدھارنے میںکافی حد تک مدد مل جائے گی ۔شاید آئی ایم ایف کا سہارا نہ لینا پڑے۔ عزم و ہمت اپنی جگہ، اور حقائق اپنی جگہ، اس وقت حالت یہ ہے کہ مہنگائی ۔ 2017میں 1.6پرسنٹ سے جست لگا کر اس سال ستمبرتک 9.2فیصد تک جا پہنچی۔ حکومت وقت کو کریڈیٹ دینا پڑتاہے کہ اس نے جولائی اور اگست میں ےہ تناسب 10.5فیصد سے کم کرکے اس عفریت کوجسے انگریزی میں ہی ”Inflation“ کہہ کر صحیح طور پر جانا جاسکتاہے، سے کم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اس بات سے لوگوںکی ہمت افزائی ہوئی ہے کہ عمران دن و رات محنت میں لگا ہواہے۔اس سے آج ایک بیان بھی منسوب کیا گیا کہ دو تین اس کی کابینہ کے وزراءرشوت خوری میں ملوث ہیں، اس نے تحقیقات کا حکم دےدیا اور جرم ثابت ہوگیا تو انہیں وزارت سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ اگر روپے کی گرتی ہوئی قدر ، گیس کی قیمتوں میں اضافہ ، بجلی اور پیٹرول کی قیمتوںمیں اضافے کی تجاویز تو پھر عام انسان کی کمرتوڑ دے گی، لیکن مجبوری کانام صبرہے، دل کے بہلانے کو غالب خیال اچھاہے۔ دوسرا سب سے تکلیف دہ امر یہ ایک اور بھی ہے اور وہ ہے اسٹاک مارکیٹ میں بد اعتمادی ، پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے اس طرف توجہ دلاتے ہوئے حکومت کویاد دلایا کہ اسٹاک مارکیٹ میں اربوں روپے کا سرمایہ ڈوب گیا ۔اعداد وشمار سے ےہ بات صحیح ثابت ہوجاتی ہے، پچھلے کئی دنوں میں پاکستانی شیئر مارکیٹ میں ریکارڈ 3,500پوائنٹ کی کمی واقع ہوئی ہے جو کسی بھی گورنمنٹ کے لئے باعث تشویش ہوسکتی ہے،لیکن پھر عمران اور ان کے ساتھیوں کو کریڈیٹ دینا پڑتا ہے کہ انہوںنے حالات کو سنوارنے کی بھرپور کوشش کی اور پچھلے تین دنوں میں مارکیٹ پھر اوپر جاناشروع ہوجائےگی۔ جوکہ خوش آئند ہے، ادھر خود وزیر خزانہ اسد عمر نے قبول کیا کہ پاکستانی بینکوں کی حالت اچھی نہیں، وہ حکومتی قرضوں کے تقاضے پورے نہیں کرسکتے۔ اس کی صحیح طرح سے تشریح کی جائے تو آصف زرداری کی بات میںوزن نظر نہیں آتا کہ حکومت چلنے والی نہیں اور تمام اپوزیشن کی جماعتیں مل کر تحریک انصاف حکومت کے خلاف پارلیمنٹ میںعدم اعتماد کی قرارداد پیش کریں۔ ایسی بھی کیا جلدی کوئی بھی حکومت دنیا میں 45دنوںمیںصحیح نتائج نہیں حاصل کرسکتی۔اتنا وقت بلکہ تقریباً6مہینے تو نئی حکومت کو ملکی معاملات سمجھنے میں لگ جاتے ہیں، پھر پیپلز پارٹی ، نون لیگ ، اور جماعت اسلامی کی چیخ و پکار کے پیچھے آخر کون سے عوامل کار فرما ہیں؟ اس سوال کا جواب اگر ڈھونڈ لیا جائے تو سب ہی خاموش ہوجائیں گے ۔ مبصرین کا کہنا کہ معیشت بری حالت میں ہے، لیکن سرکاری ادارے جن کا کام مسائل کو حل کرنا ہے وہ خود بھی ناکارہ ثابت ہوئے ہیں، انہیںپچھلے دس سال پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی حکومتوں کی طرف سے رشوت کھانے کی کھلی چھٹی تھی، اس لئے کہ ان کے بھی حصے بندھے ہوئے تھے، اب اگر کوئی ایماندار آیا ہے تو ظاہر ہے کہ سب کو پریشانی ہے۔ خود عمران خان نے دو روز پہلے شکایت کی کہ سول بیوروکریسی اور پولیس حکومت سے تعاون کرنے میں لیت ولعل سے کام لے رہی ہے، اس کا ایک ہی جواب ہے کہ تمام نا اہل لوگوںکی چھٹی کردی جائے، اور نئے، نوجوان ، تعلیم یافتہ لوگوں کو اہم عہدوں پر بٹھایا جائے۔ سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن جو کہ کاروباری اداروں کی دیکھ بھال کرنے کے لئے بنائی گئی اس پر انگلیاںاٹھ رہی ہیں، کہ بجائے اپنے فرائض ادا کرنے کے اس کے افسران بھی کرپشن کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، گورنمنٹ نے SECPکے چیئرمین شوکت حسین کو نا اہل قرار دے کر انکی چھٹی کردی، اب ان کے دو افسران طاہر محمود اور شاہ زیب علی اب تک اپنی جگہ موجود ہیں، لیکن ان کی آپس کی چپقلش کی وجہ سے SECPکنفیوژن کا شکارہے، اگر یہ حال رہا تو اسٹاک مارکیٹ کیسے اٹھے گی۔ اسٹاک مارکیٹ کے بارے میں بروکیج ہاﺅسز نے نیشنل انشورنس کمپنی کی مدد مانگ لی ہے کہ انہیں بیل آﺅٹ کیا جائے، لیکن ےہ تو ہار ماننے کے مترادف ہے، خود اتنی بڑی اسامیاں کوئی پروگرام بناکر مارکیٹ کو اٹھانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ کمپنیز ایکٹ قانون کے تحت مارکیٹ میں رجسٹرڈ کمپنیوں کو اجازت ہے کہ وہ خود ہی اپنے شیئرز مارکیٹ سے خرید کر ایک ٹریژری میںحفاظتی طور پر جمع کرلیں،لیکن اس پر شاید جان بوجھ کر عمل درآمد نہیں ہوتا، منافع خوری جہاں سب سے اہم اصول ہو، وہاں کوئی بھی قوانین نافذ کردیں، حالات صحیح نہیں ہوسکتے ۔ 
 

شیئر: