”خاشقجی“ کے بحران کی بابت توقعات
عبدالرحمن الراشد ۔ الشرق الاوسط
جمال خاشقجی کے قتل کا واقعہ مختلف پہلوﺅں سے پیچیدہ مسئلہ ہے۔ یہ انتہائی عجیب و غریب حالات میں جنم لینے والا سیاسی جرم ہے۔ اسکی نسبت ایسے ملک کی طرف ہے جس نے حریفوں کے خلاف کبھی تشدد استعمال نہیں کیا۔ خاشقجی کو کبھی سعودی عرب کی قومی سلامتی کیلئے پرخطر قرار نہیں دیا گیا۔ انہوں نے 30برس تک سعودی حکومت کے ترجمان اور سعودی میڈیا کے لئے کام کیا۔ قتل کا واقعہ غیر دوست سرزمین پر پیش آیا۔
توجہ طلب امر یہ ہے کہ سعودی پبلک پراسیکیوٹر نے جو قصہ میڈیا کے سامنے رکھا ہے، وہ ملزمان سے پوچھ گچھ کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔ یہ نتیجہ ترک حکام کی جانب سے پس دیوار جاری کی جانے والی بیشتر رپورٹوں کے عین مطابق ہے۔ تمام رپورٹوں کے مطابق نہیں۔ حتمی بات یہ ہے کہ ایک گروپ سعودی قونصل خانے میں خاشقجی سے ملاقات کیلئے استنبول گیا۔ انہیں سعودی عرب واپس آنے پر آمادہ کرنے اور بات نہ ماننے پر انہیں زبردستی واپس لانا انکا مشن تھا۔ پروگرام یہ تھا کہ خاشقجی کو اغوا کرکے کسی محفوظ جگہ منتقل کیا جائیگا اور وہاں سے انہیں سعودی عرب لایا جائیگا۔ اس سے یہ بات خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ آپریشن میں شریک افراد اچھی خاصی تعداد میں تھے۔ ہر خفیہ سیکیورٹی آپریشن کیلئے بڑی تعداد میں لاجسٹک ٹیم درکار ہوتی ہے۔ بطور مثال حماس تحریک کو اسلحہ اسمگل کرنے والے محمود المبحوح کے قتل کے واقعہ کو لے لیجئے۔ اسرائیلی کثیر تعداد میں سیاحوں کے طورپر دبئی پہنچے تھے۔ انہوں نے طویل فاصلوں پر موجود ہوٹلوں میں رہائش اختیار کی تھی۔ جعلی ناموں ااور پاسپورٹوں پر سفر کیا تھا۔ انجانے موبائل نمبر استعمال کررہے تھے۔ جہاں تک خاشقجی کے قتل کی واردات کرنے والے گروپ کا تعلق ہے تو یہ سب اجتماعی شکل میں استنبول پہنچے۔ ان میں سے بعض کو ترک سیکیورٹی اہلکار پہچانتے تھے۔ حقیقی پاسپورٹ سے سفر کیاتھا۔ سعودی قونصل خانے گئے۔ اِس سے اُس کہانی کو تقویت پہنچتی ہے کہ اصل مقصد خاشقجی کو زندہ واپس لاناتھا۔ یہ الگ بات ہے کہ مشن کی ناکامی کے بعد گروپ نے انہیں قتل کردیا۔
پبلک پراسیکیوشن کی کہانی تحقیقات پر مبنی ہے۔ مقدمہ شروع ہوگا تو ملزمان کی شہادتیں براہ راست سننے کو ملیں گی۔
انسپکٹرز نے تحقیق کا متوقع عمل مکمل کرلیا ہے۔ پبلک پراسیکیوشن کے ترجمان نے جتنا کچھ بتایا وہ کافی کچھ ہے بلکہ ترک کہانیوں سے ملنے والی معلومات سے کہیں زیادہ ہے۔ اسکے باوجود ہمیں یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہے کہ ترکی اور قطر سعودی عرب سے سیاسی اختلاف کے باعث اس قضیے کو مملکت کے خلاف استعمال کرنے سے دستبردار نہیں ہونگے۔ وہ اسے فٹبال کے طور پر استعمال کرینگے۔
لہذا ہمیں 2جرائم میں فرق کرنا ہوگا۔ ایک تو جمال خاشقجی رحمتہ اللہ علیہ کے قتل کا جرم، دوم زیر تکمیل جرم۔ سعودی عرب کے خلاف منظم تشہیری مہم ۔ میں وہ بات نہیں کہنا چاہتا جو دوسروں نے کہی ہے ۔ وہ یہ کہ خاشقجی کا قتل فرد واحد کا واقعہ ہے اور وہ یہ کہ 5لاکھ سے زیادہ افراد کو شام میں جان بوجھ کر قتل کردیا گیا۔کسی نے اس پر احتساب نہیں کیا۔علاقے کے دیگر ممالک میں اس جیسے اور بھی جرائم ہوئے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ قتل جرم ہے۔ قرآن کریم نے اس کی سنگینی سے یہ کہہ کر خبردار کیا ہے کہ” جو شخص ناحق یا فساد فی الارض کی نیت سے کسی کو قتل کرے گویا کہ وہ تمام انسانوں کا قاتل ہوگا“۔ میں یہ بات تو نہیں کہوں گابلکہ قطر کی جانب سے خاشقجی کے قتل کے جرم کو زیادہ پرخطر مقاصدکیلئے سیاسی رنگ دینے کی مہم کو ہم پوری قوت سے مسترد کرتے ہیں کیونکہ سعودی عرب کے نظام اور سعودی عرب کے امن نظام کو متزلزل کرنے کی کوشش خاشقجی کے قتل کے واقعہ سے کافی پہلے سے جاری ہے۔ جو شخص بھی بحران پر نظر رکھے ہوئے ہے وہ محسوس کرتا ہے کہ خاشقجی کے قتل کو بدنیتی کے ساتھ استعمال کیا گیا۔ میں یہاں ایک تقابل پیش کرکے فریقین کے عزائم کو سامنے لانا چاہوںگا۔
ترکی میں 2برس قبل ناکام بغاوت کی کوشش کے بعد ترک حکومت نے خطے کی متعدد حکومتوں سے اپوزیشن کرنے والوں کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس وقت سعود ی عرب اور کویت نے بھی مطلوبہ افراد ترکی کے حوالے کئے تھے تاہم جب ترکی نے انتہا پسند سعودیوں کی میزبانی کی اور سعودی عرب نے انہیں حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تو ترکی نے انہیں حوالے کرنے سے انکار کردیا۔ ترکی نے انہیں سعودی مخالف سرگرمیوں سے باز رہنے کا بھی پابند نہیں بنایا۔ یہ پہلو حکومتوں کے درمیان مسائل کی سنگینی اور اعلیٰ مفادات کی دراندازوںکا پتہ دیتا ہے۔ اسی سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ایک انسان کا المیہ گھناﺅنے کھیل میں کس طرح تبدیل ہوجاتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭