شام میں امریکہ کا نمائندہ گروپ
جمعرات 29 نومبر 2018 3:00
عبدالرحمن الراشد ۔ الشرق الاوسط
الشرق الاوسط نے مفصل رپورٹ جاری کرکے بتایا ہے کہ ایرانی ملیشیاﺅں اور افواج سے نمٹنے کیلئے امریکہ نے شام میں مقامی ملیشیا تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ شام میں محاذ آرائی کا دائرہ وسیع کرنا چاہتاہے۔ یہ اقدام ایسے وقت میں کیا گیا ہے جبکہ ایران پر امریکی پابندیوں کا دوسرا مرحلہ شروع ہوچکا ہے اور اسرائیلی فضائیہ کو بے اثر بنانے والے روسی میزائلوں سے نمٹنے کی جہت میں ایک او رپیشرفت کی گئی ہے۔
امریکہ 30ہزار شامی کردوں کو فوجی تربیت دیگا۔ بعض عرب بھی اس میں شامل ہونگے۔ اس طرح دریائے فرات فیصلہ کن نئی سرحد کا کام دیگا۔ دریائے فرات کے مغرب میں بشار الاسد کی افواج اور اس کے حلیف ایران اور روس کی فوجیں ہونگی۔ مشرقی کنارے پر امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی فوجیں لشکر انداز رہیں گی۔
امریکی اپنے اہداف چھپا نہیں رہے ۔ انکا ایک ہدف داعش سے ٹکر لینا ہے۔ دوسرا ہدف یہ ہے کہ ایرانی افواج اور انکی ملیشیاﺅں ” فیلک القدس “ کا دائرہ تنگ کرنا ہے۔ تیسرا مقصد شامی اقتدار پر ہونے والے مذاکرات میں اپنی پوزیشن بہتر بنانا ہے۔
روس نے زمین سے فضا میں مار والے ایس 300میزائل شام کو فراہم کرکے شام میں موجود ایرانی افواج کو اسرائیلی بمباری سے تحفظ فراہم کردیا تاہم روس نے یہ اقدام کرکے شام پر بشار الاسد کے اقتدار کی بابت امریکہ کیساتھ طے پانے والی مفاہمت کو نقصان پہنچا دیا۔روس کی اس ضد نے کہ ایرانیوں کو شام میں تحفظ حاصل ہو، امریکیوں کو شامی کردوں کا کرداروسیع تر کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ داعش ، ایران اور بشار سے نمٹنے کیلئے شامی کردوںکو تیار کرنا امریکہ کی مجبوری بن گیا ہے۔ کردوں کا کہناہے کہ انکے پاس60ہزار جنگجو موجود ہیں۔ امریکہ30ہزار کرد جنگجو ﺅں کو تربیت دیگا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ اعدادوشمار مبالغہ آمیز ہیں۔شامی ڈیموکریٹک فورس ” قسد“ کا اعلانیہ موقف داعش اور ایرانیوں سے محاذ آرائی ہے البتہ اس حوالے سے ایک اور گتھی ہے اور وہ یہ ہے کہ امریکہ کی حامی ملیشیا میں بیشتر کرد شامل ہیں اور ترک نہ صرف یہ کہ کردوں کے دشمن ہیںبلکہ وہ انکے بھی مخالف ہیں جو کردوں کی حمایت کرتے ہوں۔ اس تناظر میں ترک سیاسی اعتبار سے بشار الاسد ، ایران اور روسی کیمپ کے زیادہ قریب چلے گئے ہیں۔ وہ کردوں کو اپنی جنوبی سرحد کے قریب طاقتور بننے سے روکنے کے درپے ہیں۔ یہ کرد شامی ہوں یا کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں، اس منظر نامے نے صورتحال کو مزید پیچیدہ اور مبہم بنادیا ہے۔ ترک وزیر دفاع نے اسکا اظہار یہ کہہ کر کیا ہے کہ”امریکیوں نے پیچیدہ صورتحال کو مزید پیچیدہ بنادیا“۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکی وہی کچھ کررہے ہیں جو دیگر کرچکے ہیں۔ کرد شامی حکام کے اتحادی رہ چکے ہیں۔ ایرانی ترکوں کو دھمکانے کیلئے انہیں آلہ کار کے طور پر استعمال کرچکے ہیں۔ ترک حکومت ایران، روس اور شام کے آگے جھکی او راس نے اسی تناظر میں اپنا موقف تبدیل کیا۔ اب امریکی کثیر جہتی فریقوں کے خلاف شامی کرد طاقتور ملیشیا قائم کررہے ہیں۔ اس کی بدولت شامی اپوزیشن کے حلقوں میں امیدوں کے دیئے روشن ہونے لگے ہیں۔ انہیں محسوس ہونے لگا ہے کہ خانہ جنگی کے دوران انہوں نے جتنے علاقوں پر قبضہ کیا تھا، ان سے محرومی کے بعد انہیں ایک بار پھر جنگی معرکے شرو ع کرنے کا موقع ملے گا۔
امریکی کرد ملیشیا قائم کرکے ایرانیوں کی بھی نقل کررہے ہیں جنہوں نے نیابتی جنگ کی طرح ڈالی تھی۔ انہوں نے براہ راست جنگ کے بجائے ملیشیاﺅں کو استعمال کیا تھا۔ وہ 4برس سے زیادہ عرصے سے لبنانی، عراقی، افغانی اور پاکستانی ملیشیاﺅں کی مدد سے شام میں نیابتی جنگ کررہے ہیں۔ امریکہ بھی اسی راستے پر چل کھڑا ہوا ہے۔ اس نے عراق اور افغانستان سے کافی کچھ سیکھا ہے۔اب وہ براہ راست جنگ کے بجائے مقامی عسکریت پسندوں پر انحصار کرکے نیابتی جنگ کا چکر چلا رہا ہے۔
شامی فریقو ںکے درمیان مذاکرات کے نئے دور میں روس کے ساتھ عدم تعاون کا راستہ اپنا کر امریکہ روس کو نئی پالیسی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ نئی پالیسی یہ ہے کہ جنگ بند نہ ہو اور بشار الاسد ایرانیوں کے شام سے مکمل انخلاءسے پہلے شام کے مقتدر اعلیٰ نہ بنیں۔ روس کا یہ کہناکہ بشار الاسد پر اسکا کوئی اثر و نفوذ نہیں، وہ ایرانیوں کو شام سے نکالنے پر قادر نہیں،کسی کیلئے بھی قابل قبول نہیں۔ میزائل ایس 300کے بغیر ایرانی شام میں نہیں ٹک سکتے۔ اس سے قبل اسرائیلی شام میں ایرانیوں کےلئے خطرہ تھے۔ روسی ایرانیوں کو شام میں رکھ کر سیاسی مذاکرات کی پوزیشن بہتر بنانا چاہتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭