سینئر صحافی نصرت جاوید کی جانب سے قاتلانہ حملے کی خبر ٹویٹ کی گئی البتہ بعد میں انہوں نے اپنا موقف بدلتے ہوئے اسے حملے کے بجائے گاڑی کا ٹائر برسٹ قرار دے دیا۔ موقف کی تبدیلی پر ٹویٹر صارفین نصرت جاوید کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں البتہ بعض صحافی حضرات نصرت جاوید کی حمایت کرتے بھی نظر آ رہے ہیں۔
اعزاز سید نے ٹویٹ کیا : محترم نصرت جاوید صاحب نے پولیس کا موقف مان کر مثبت رپورٹنگ کی مثال قائم کردی ہے۔ ویسے وہ نہ بھی مانتے تو کیا آجتک عمر چیمہ ، حامد میر، مطیع اللہ جان ، احمد نورانی اور مجھ سمیت کسی ایک صحافی پر ہونے والے حملے کے مجرم پکڑے گئے؟
انوار لودھی نے لکھا : وہ تمام اینکرز اور صحافی جنہوں نے نصرت جاوید کی گاڑی کے ٹائر پھٹنے کو "آزادی صحافت پر حملے" قرار دیکر "اظہار یکجہتی" والے ٹویٹ داغ دیے تھے ان سے گزارش ہے کہ صحافت کے وسیع تر مفاد میں یا وہ ٹویٹ ڈیلیٹ کر دیں یا جھوٹ کو سپورٹ کرنے پر معافی کا ایک اور ٹویٹ عنایات فرما دیں۔
شاہد ندیم نے ٹویٹ کیا : نصرت جاوید کے تاریخی یوٹرن کے بعد یہ کنفرم ہو گیا ہے کہ آزادی صحافت کے نام پر لفافہ صحافت کا منجن اب نہیں بِکنے والا. اجمل قصاب سے لیکر نصرت جاوید تک۔ حامد میر نے تو قسم کھائی ہوئی ہے کہ نہ تو سچ بولنا ہے اور نہ صحافت کو خیر باد کہنا ہے حتی کہ نا ہی جیو چھوڑنا ہے.
عدیل خان یوسفزئی نے لکھا : نصرت جاوید گاڑی میں جا رہا تھا کہ کسی نوکیلے پتھر سے ٹائر برسٹ ہوگیا فوراً موبائل نکالا اور ٹویٹ کردیا کہ وزیراعظم نے اس پر قاتلانہ حملہ کروایا ۔ پولیس موقع پر پہنچے اور جائے واردات سے وہ نوکیلا پتھر برآمد کرلیا جو عمران خان نے نصرت جاوید کی جان لینے کیلئے راستے میں بچھا رکھا تھا۔
میاں متین نے کہا : اطلاعات کے مطابق نصرت جاوید نے حادثے کے متعلق کسی پولیس اسٹیشن میں درخواست جمع نہیں کروائی اور بظاہر یہ نا تو قاتلانہ حملہ ہے نا ہی ایکسیڈنٹ بلکے یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا جسے قاتلانہ حملے کا نام دیا گیا۔اس کی تحقیقات کی جائیں اور جھوٹ بولنے والے کو سزا دی جائے۔
فرحان ورک نے ٹویٹ کیا : کل سے سب لفافہ صحافی نصرت جاوید کو سچا تسلیم کر رہے تھے کہ عمران خان نے جیسے خود اس پر 6 لوگوں سے حملہ کروایا ہو لیکن آج نصرت جاوید نے خود کہ دیا کہ میرا ٹائر پتھر لگنے سے پھٹا تھا اور وہ 6 لوگ میری مدد کرنا چاہتے تھے۔
افشاں مصعب نے لکھا : ریاستی اداروں اور اس حکومت پر اعتماد کا عالم جاننا ہو تو صرف یہی کافی ہے کہ نصرت جاوید جیسا صحافی خود پر ہوئے پلانڈ حملے کی ایف آئی آر تک درج کروانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔یہ مایوس کن صورتحال ہے۔