Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچھڑنا بھی ضروری تھا:غریب ہے تو کچھ دیکر رخصت کرو

مشرف نے ماں کے استفسار پر نازو سے اپنی دوستی کو محض شناسائی اور ایک غریب خاندان سے ہمدردی قرار  دیا
 
مسز زاہدہ قمر۔  جدہ
قسط نمبر25
تقریب ختم ہو گئی اور اپنے پیچھے بہت سے سوالیہ نشان چھوڑ گئی۔ مشرف کی دلچسپی اور التفات نے سر عام عیاں ہو کر گھر والوں کو غیر محسوس اضطراب میں مبتلا کر دیا تھا۔ گو  تقریب کے اختتام پر مہمانوں کے رخصت ہو جانے پر مشرف نے ماں کے استفسار پر نازو سے اپنی دوستی کو محض شناسائی اور ایک غریب خاندان سے ہمدردی قرار  دیا۔ اس نے نازو(تتلی) کے گھر والوں کے تقریبات میں پرفارم کرنے کے بارے میں بھی ذکر نہیں کیا بلکہ نازو کے گھرانے کو غریب عزت دار فیملی کے طور پر پیش کیا ’’امی!! وہ لوگ  بڑے عزت دار ہیںبہت  غریب  فیملی ہے، میں نے ایک دو بار اس خاتون کا علاج کیا ہے۔آنٹی بے حد سمپل اور ڈیسینٹ ہیں۔بہت دُعا دیتی ہیں ، ابو کے لئے بھی انہوں نے بے حد دُعا کی ہے ‘‘ ، مشرف نے جھوٹ بولا تو حد ہی کر دی۔اس نے نازو کے بجائے اس کی ماں کے علاج کا ذکر کرکے ماں کو دھوکا دیا اسے علم تھا کہ اگر وہ نازو کا ذکر کرے گا تو اس کے گھر والے شک میں پڑ سکتے ہیں اور وہی ہوا جو اس نے سوچا تھا۔ اس کی ماں نے تھوڑی سی نصیحت کے بعد موضوع بدل دیا۔ ’’بیٹا!! کسی کی مدد کرنا بُرا نہیں مگر یہ دیکھو کہ اُن صاحبہ کی جوان بیٹی کس طرح تم سے فری ہو رہی تھی۔۔۔۔ اور مجھے بھی وہ خاتون سمپل اور ڈیسینٹ نہیں لگیں۔ بہت گھاگ اور چالاک دکھائی دے رہی تھیں۔معلوم نہیںتم کس طرح ان لوگوں کو معصوم  قرا ر دے رہے ہو؟؟ خیر !!! آئندہ احتیاط کرنا میں اب ایسی کوئی  حرکت نہیں ہوتے دیکھوں اور نہ ہی اس طرح کے لوگوں کو فیملی فنکشنز میں بُلانا۔ غریب ہیں تو کچھ  مدد کر کے  رُخصت کر دیا کرو گھر میں گُھسانے کی کیا ضرورت ؟؟؟ ‘‘وہ ماں کا دل رکھتی تھیں۔ بیٹے کو سادہ دل سمجھ کر نصیحت کررہی تھیں۔ یوسف صاحب بھی ان کی تائید کر رہے تھے تو مشرف نے بھی جلدی سے وعدہ کر لیا۔’’ٹھیک  ہے امی !!! میں آئندہ خیال رکھوں گا‘‘۔ پھر وہ لاونج میں زیادہ دیر نہیں رُکااور نیند کا بہانہ بنا کر اُٹھ گیا۔ اس کی وضاحت اور بظاہر شرمندگی نے معاملہ عارضی طور پر رفع دفع کر دیا تھا مگر یوسف صاحب اور صارف کو یہ معاملہ نہ تو عام سا لگا اور نہ  انہیں یہ محسوس ہوا کہ اب یہ بات ختم ہو گئی ہے ۔ ایک انجان اضطرب اور بے چینی نے ان کے دلوں میں قدم جما لئے تھے جسے و ہ دونوں ایک دوسرے سے چُھپا رہے تھے۔یہی  حقیقت تھی ، مشرف سونے کے لئے کمرے میں نہیں گیا تھا۔ اسے موبائل پر نازو کے مسیج نے سب کے بیچ سے اُٹھنے پر مجبور کیا تھا۔
وہ کمرے میں آیا اور جلدی سے دروازہ لاک کرکے کال ملائی دوسری طرف وہی دشمن جان تھی۔ ’’اوہ !! ہمارا نصیب۔۔۔۔ آپ نے اتنی جلدی عزت بخش دی، ہم تو سمجھے تھے کہ شاید ہمارا میسج بھی پڑھنے کی زحمت گوارا نہ کریں !!!‘‘ ۔، اس کا ایک ایک لفظ بناوٹ اور مصنوئی پن کے رنگ میں رنگا تھامگر مشرف سر شار ہو گیا اس کے فرویانہ انداز پر ۔۔۔’’ ارے !!!!آپ کیسی بات کر رہی ہیں آپ کا میسج کیوں نہیں پڑھونگا؟؟میں آپ کی بے حد عزت کرتا ہوں اور آپ کو دوست کی طرح اہمیت دیتاہوں۔۔۔ خیر !!! یہ بتایئے آپ نے شکریہ کس بات کا ادا کیا ہے ؟؟؟‘‘ ، اس نے بڑی تکریم سے نازو کو مخاطب کیا۔ 
’’کیا آپ کو نہیں معلوم کہ ہم نے شکریہ کیوں ادا کیا؟؟ بڑے سیدھے ہیں آپ ۔۔۔ ارے ہم تو سر تا پا آپ کے شکر گُزار ہیں کہ آپ نے اتنے بڑے بڑے لوگوں کی  پارٹی میں ہماری پوری فیملی کو بُلایا۔ سچ !! ہم تو اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھ رہے تھے۔۔۔ آپ نے کتنی عزت دی ہمیں ۔۔۔۔ ورنہ ہم لوگوں کو  تو کوئی انسان ہی نہیں سمجھتا ۔۔۔ غریبوں کی دُنیا میں عزت ہی کہاں ہے!! اور آپ جیسے اعلیٰ فیملی والے اتنے بڑے ڈاکٹر نے ہمیں اپنے برابر سمجھا‘‘۔  وہ بڑی چالاکی اور چالبازی  سے مشرف کو گھیر رہی تھی۔۔۔خود کو  غریب ، مجبور اور مسکین ظاہر کر رہی تھی۔۔۔ مشرف کو اعلیٰ اور ارفع قرار دے رہی تھی۔ اسے باور کروارہی تھی کہ وہ ایک رعایا اور کنیز کی طرح مشرف کے سامنے خود کو ایک کم تر اور ادنیٰ ہستی سمجھتی ہے۔مشرف احساس تفاخرا اور مُسرت سے جُھوم اُٹھا۔ وہ خود کو ایک مہاراجہ تصور کر رہا تھا  جس کی رعایا اس کی شُکر گُزار ی میں سراپا  سپاس ہو۔۔۔ اس احساس نے اس کے رگ و پے میں  سرور بھر دیا۔ ’’آپ کیسی بات کر رہی ہیں !! میں ذات اور طبقات یا حیثیت کی بنیاد پر تفریق کا قائل نہیں ۔۔۔ میری نظر میں سب انسان برابر ہیں یہ ساری باتیں غیر انسانی ہیں۔ غریب امیر کیا ہوتا ہے ؟؟ یہ سب فضول باتیں ہیں سب انسان ایک جیسے ہوتے ہیں اگر کوئی پیسے یاحیثیت میں آگے ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کسی غریب کو عزت نہ دے،کسی کو عزت دینے سے عزت بڑھتی ہے گھٹتی نہیں۔۔۔‘‘ ، وہ بڑے جزب سے کہہ رہا تھا  اور تتلی اس کے خوبصورت  خیالات کی مدح سرائی میں زمین آسمان ایک کر رہی تھی۔۔۔۔ دونوں نے کافی دیر تک بات کی ۔۔۔۔ تتلی نے پوری طرح خودکو مشرف  سے متاثر ظاہر کیا وہ مشرف کو سمجھ چکی تھی۔۔۔۔ بے حد گھاگ تھی اسے معلوم تھا کہ مشرف کو اپنی تعریف پسند ہے اور وہ اپنے آپ سے بر تر یا آگے ہونے والوں کو پسند نہیں کرتا لہذا تتلی نے خود کو اس کی نفسیات کے پیش نظر اس سے کم تر اور اس کے اعلیٰ خاندان اور تعلیم کے سامنے ایک کنیز اور خادمہ کی طرح وفادار، اس کی سحرانگیز شخصیت کے فسوں میں گرفتار معصوم سادہ لڑکی کے طور پر پیش کیا۔مشرف اپنی مبالغہ کی حد  تک پہنچی ہوئی ستائش پر خود کو ایک خوابو ں کا شہزادہ تصور کر رہا تھا۔ وہ بہت خوش تھا ۔۔۔ آخر ملاقات کا وقت طے  کر کے دونوں نے فون بند کیا۔ ۔ ۔مگر ان پر اب دوستی کا دروازہ کُھل چکا تھا۔
مشرف مقررہ وقت اور جگہ پر تتلی سے ملنے کے لئے بے اختیار تھا۔۔۔ وہ تتلی سے مل کر آیا تو ملاقات کے سحر میں پوری طرح جکڑ چُکا تھا۔  دوسری مُلاقات تک وہ مخمور رہا ۔۔۔اور پھر وہ ان ملاقاتوں کا شمار  بھولنے لگا۔ ملاقاتوںکا ہی نہیں وہ ساری دُنیا کو ہی بھول چکا تھا۔۔۔ ایسی دھند کا مُسافر تھا جہاں آس پاس کچھ دکھائی دیتا تھا نہ سُنائی۔۔۔ وہ کچھ  سوچنا اور سمجھنا نہیں چاہتا تھا۔ اس کی سمعاتوں میں ایک آواز اور بصارتوں میں صرف ایک عکس تھا۔ نازو۔۔۔نازو۔۔۔۔
اس کی بے خودی حد سے بڑھ چکی تھی۔۔۔ کلینک بند ہو چکا تھا۔۔۔مریض ڈاکڑ کے عدم موجودگی کے باعث آنا ترک کر چکے تھے  ٓٓاور صادق کئی بار صارف کو فون کر کے آگاہ کرنے کے ارادے کو عملی جامہ پہنانے پر آخر کار مجبور ہو گیا۔۔۔۔اس نے جب صارف کو کال کر کے خبر دی تو صارف بھونچکا رہ گیا۔۔۔۔
کیا کہا؟؟مشرف 3 ہفتوں سے کلینک نہیں آیا؟؟‘‘۔ وہ حیرت کی  زیادتی  سے زیادہ بول نہیں سکا۔ ’’جی  سر!!! وہ 3 ہفتوں سے نہیں آئے ، بس میں صبح آ کر صفائی وغیرہ کرتا ہوں اور ایک گھنٹہ بیٹھ کر چلا جاتا ہوں، اب کوئی مریض بھی نہیں آتا ۔۔۔ سب کو معلوم ہے کہ ڈاکٹر صاحب اب نہیں آتے‘‘ صادق نے تفصیل بتائی۔’’مگر وہ روز کلینک کے لئے  جاتا ہے۔ اس نے دوبارہ ہسپتال سے چُھٹی بھی اسی لئے لی جب کہ
 اسے کلینک کو دیکھنا تھا۔۔۔پھر!!!۔۔‘‘ ،۔صارف کہتے کہتے رُک گیا۔ پھر اسے کچھ خیال آیا’’صادق!!! تم مجھ سے مل سکتے ہو؟؟ اس وقت کہاں ہو؟؟‘‘ اس نے فیصلہ کر کے صادق سے پوچھا۔ 
’’جی صاحب !! میں مل سکتاہوں، میں اب بھی کلینک میں ہوں ، بس اب جانے والا تھاآپ بتا یئے میں کہاں ملوں؟؟‘‘اس نے پوچھا، ’’کہیں نہیں !!! تم کلینک پر رُکو۔۔۔ میں آرہا ہوں‘‘۔۔ صارف نے کہا اور فون بند کر دیا اس کے  پیروں  میں گویا پہیے  لگ گئے تھے وہ خیالات کے ہجوم میں گھرا کلینک پُہنچا تو صادق اس کا انتظار کر رہا تھا۔
صارف اندر جا کر مشرف  کی کرسی پر بیٹھ گیا ’’ہوں !! اس نے صادق کی طرف دیکھا۔’’اب ذرا سچ بتائو، اصل  معاملہ کیا ہے ؟؟‘‘
(باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: