ریاض۔۔۔ انسانی حقوق اور سماجی امور کے ماہرین نے کینیڈا میں والدین کی باغی سعودی لڑکی کے پرجوش استقبال اور سرکاری و عوامی سطح پر اس کے اعزاز و ا کرام پر حیرت و تعجب کا اظہار کیا ہے۔ ماہرین سماجی امور نے اس حوالے سے دو تصویروں کے تقابلی مطالعے کی فکر انگیز دعوت دیتے ہوئے توجہ دلائی ہے کہ تقریباً دو برس قبل کینیڈین حکومت نے یمن کی 2 خواتین کو اس وقت ایئرپورٹ پہنچتے ہی گرفتار کرلیا تھا جب وہ امریکہ سے نکالے جانے پر سیاسی پناہ لینے کیلئے وہاں پہنچی تھیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے تقریباً 2 برس قبل یمن سمیت 7 ممالک کے باشندوں کے امریکہ آنے پر پابندی عائد کردی تھی اس موقع پر یمنی لڑکی اپنی بہن کے ہمراہ امریکہ سے فرار ہوکر کینیڈا پہنچی تھی ، پناہ کی طلبگار تھی۔ کینیڈین پولیس نے یمنی لڑکیوں کو اپنے ملک پہنچتے ہی نہ صرف یہ کہ گرفتار کرلیا تھا بلکہ ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں مجرموں کی مانند ڈال دی تھیں۔ سب کو معلوم تھا کہ یمنی لڑکیوں کا معاملہ انسانیت کا ہے۔ ان کا ملک حوثی باغیوں کے زیر اقتدار ہونے کے باعث غربت ، خانہ جنگی اور بدامنی کے بحران میں پھنسا ہوا ہے۔ یہ صورتحال یمنی لڑکیوں کے ساتھ ہمدردی کی طلبگار تھی ناکہ انہیں گرفتار کرنے کی۔ کینیڈا کے حکام ان لڑکیوں کے زاروقطار رونے سے بھی نرم نہیں ہوئے تھے جبکہ ذرائع ابلاغ نے ان دونوں کی گرفتاری کی سنگل کالم خبر دینے پر ہی اکتفا کرلیا تھا۔ دوسری طرف سعودی لڑکی"رھف " کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ یہ لڑکی اپنے اہل خانہ سے گھریلو امور میں نالاں ہوکر فرار ہوئی تھی ۔ اس کا معاملہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ زمین وآسمان سر پر اٹھا لیا۔ کینیڈین وزیر خارجہ نے اس کا پرجوش استقبال کیا۔ ایک پناہ گزین کے ساتھ اس جیسا شاندار رویہ اپنے آپ میں بڑی خبر ہے۔ تصویر دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ گویا کہ کینیڈین حکام نے رھف کو پناہ دے کر غیر معمولی کارنامہ انجام دیا ہے۔ دونوں لڑکیوں کے معاملے میں یہ امتیازی سلوک صرف اس لئے کیاگیا کیونکہ رھف کا تعلق سعودی عرب سے ہے۔