Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچھڑنا بھی ضروری تھا: وہ جانتی تھی لوگ نمک مرچ لگا کر اکساتے ہیں

 دیکھو تو بے حیائی، بیوی تو چھوٹے بھائی کی ہے اور غلام بنا ہے بڑابھائی، تُف ہے ایسی عنایات پر وہ فرجاد کے سامنے چیخ چیخ کر ایسی باتیں کرتی کہ فرجاد گھبرا جاتا
مسز زاہدہ قمر۔جدہ
ان کے ساتھ آئی ہوئی بہن جو بڑھ بڑھ کر باتیں بنا رہی ہیں ، ان کی بیٹی دو سال پہلے وین ڈرائیور کے ساتھ کورٹ میرج کر کے گھر چھوڑ چکی ہے مگر ان سب کے بچے اپنے گھر والوں کو بدنام نہیں کر رہے۔ اپنے حال میں مست ہیں۔ اسی لئے یہ لوگ اتنے اطمینان سے ہمارے گھر میں بیٹھ کر ہم پرانگلیاں اُٹھا رہے ہیں اور مشرف بھائی ! وہ اپنا فیصلہ سنا کر نہ صرف گھر سے چلے گئے بلکہ ہر جگہ اپنے والدین کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔یہی سوچ عالم آراء کی تھی۔ ان کا دل چاہتا تھاکہ گھر میں کوئی نہ آئے کیونکہ جو بھی آتا مشرف کی ایک نئی بات سنانے آتا۔ ’’بھابھی! مشرف کہہ رہا تھا کہ امی ابو میری شادی کرنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ میں نے شادی کے لئے کہا تو نرمین جیسی پھوہڑ اور آرام طلب لڑکی میرے پلے زبردستی باندھ دی۔ ‘‘کوئی کہتا ’’مشرف کہہ رہا تھا کہ گھر والے میری کمائی کھا رہے تھے۔ سارا کاروبار صارف کو دے دیا جو اس سے سنبھل نہیں رہا، اب میری کمائی پر گزارہ ہے اور یہ چاہتے ہیں کہ نرمین سے شادی کر کے بڑے ابو کی سپورٹ مل جائے۔ سارا گھر عیش کرے اور میں بڑے ابو کا غلام بن کر زندگی گزاروں۔‘‘
وہ سب جانتی تھیں کہ لوگ نمک مرچ لگا کرا نہیں اُکساتے ہیں تاکہ وہ اس پر کوئی جواب دیں اور پھر یہ جواب بڑھا چڑھا کر مبالغہ آرائی کر کے مشرف کو بتا یا جائے اور مشرف اس پر سخت ترین ردِ عمل ظاہر کرے اور یہ ردِ عمل بھی سیاق و سباق سے ہٹا کر ان کو بتایا جائے۔  وہ جواب در جواب کے اس عمل سے بچنے کی حتی الامکان کوشش کر تیں ۔ وہ سخت صدمے میں تھیں کہ مشرف کس طرح دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا تھا۔ وہ کتنی سخت زبان اپنے گھر والوں کے لئے استعمال کر رہا تھا۔ کاش ! وہ سمجھ جائے، کاش ! اسے کوئی سمجھا دے۔ کاش ! اسے عقل آجائے، وہ دُعا مانگنے لگتیں۔
ادھر خورشید بیگم بھی ان کے گھریلو حالات سے بے خبر فرجاد اور غزالہ کے رشتے کے لئے جلد ہی جواب چاہتی تھیں۔ وہ فرجاد کو منزہ کے سحر سے آزاد کرانے کے لئے ضروری سمجھتی تھیں کہ اس کی شادی فوراً ہی اچھے خاندان کی خوش شکل غزالہ سے طے کر دیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں فرجاد کو بھی منا لیا تھااور اس کام کے لئے انہیں جتنی کوشش کرنی پڑی ، وہ ان کا دل جانتا تھا۔ فرجاد بُری طرح بگڑ گیا تھا۔ وہ کسی قیمت پر شادی پر آمادہ نہیں تھااور منزہ ، وہ تو زخمی ناگن کی طرح تڑپ اٹھی تھی۔ جانے اس نے فرجاد کے کان میں کیا کہہ دیا تھا کہ وہ شادی کا ذکر سنتے ہی ہتھے سے اُکھڑ جاتا تھا۔ گھر میں کئی دِن ہنگامہ رہا ، آخر خورشید بیگم ماں تھیں، انہوں نے آخری حربے کے طور پر نویرہ کو اعتماد میں لے کر خاموشی سے گھر چھوڑدیا۔
ان کے منظر عام سے ہٹتے ہی فرجاد اور منزہ کے ہوش ٹھکانے آگئے۔ پہلے پہل تو انہیں رشتے داروں اور ملنے جلنے والوں کے گھر ڈھونڈا گیا پھراسپتال اور بے سہارا لوگوں کے شیلٹر ہومز میں اور آخر میں مردہ خانوں تک میں دیکھ لیا گیا مگر خورشید بیگم کو نہ ملنا تھا نہ وہ ملیں۔ نویرہ کی اداکاری بلا مبالغہ آسکر ایوارڈ کی حقدار تھی۔ وہ جس طرح ماں کی گمشدگی پر تڑپ رہی تھی، کسی کو اس پر ذرہ برابر شک نہیں تھا کہ وہ سب جانتی ہے ۔ منزہ اندر ونی طور پر خوش ہونے کے باوجود افسردگی کا چولا اوڑھنے پر مجبور تھی۔ فرجاد اور دلشاد کی بدحواسی اور پریشانی واقعی حقیقی تھی۔ خصوصاً فرجاد سب کچھ بھول بھال کرماں کی تلاش میں زمین آسمان ایک کر رہا تھا۔ اس پر نویرہ دل دہلانے والے انداز میں رو رو کر دل کی خوب بھڑاس نکال رہی تھی۔
’’قدرت ایسی اولاد، ایسے بیٹے کسی کو نہ دے جو اپنی نافرمانیوں کے ذریعے ماں کو بڑھاپے میں خوارکریں‘‘۔’’وہ سب اسی دنیا میں مآل بھگتیں گے جن کی خاطر میری معصوم ماں در بدر ہوئی‘‘،’’ہائے! دیکھو تو بے حیائی، بیوی تو چھوٹے بھائی کی ہے اور غلام بنا ہوا ہے بڑابھائی۔تُف ہے ایسی عنایات پر ۔ وہ فرجاد کے سامنے چیخ چیخ کر ایسی باتیں کرتی کہ فرجاد گھبرا جاتا۔’’کہیں نویرہ باجی مجھے پورے خاندان میں ذلیل نہ کر دیں۔ وہ ہراساں ہوتا۔’’ کہیں دلشاد کو شک نہ ہو جائے‘‘ وہ دونوں ہراساں ہو جاتے، حالانکہ انہیں اچھی طرح علم تھا کہ دلشاد بے حمیت انسان ہے۔ وہ کونسی کوئی کارروائی کرے گا، اب بھی بہت سی باتیں اس کے سامنے ہوتی ہیں مگر وہ بدھو اسے دیور بھابھی کے احترام پر محمول کرتا ہے۔ پھر بھی بُرا وقت آتے کیا دیر لگتی ہے ۔پھر خاندان والوں کی سوالیہ نگاہیں اور معنی خیز مُسکراہٹ!چُبھتے ہوئے سوالات۔ ایک ہی ہفتے میں فرجاد نے گھٹنے ٹیک دیئے۔منزہ بھی مصلحتاً فرجاد سے لئے دیئے رہنے لگی۔ بظاہر ایک اور چھوٹے سے ڈرامے کے بعد بالآخر خورشید بیگم کو کسی اسپتال میں ڈھونڈ لیا گیا۔ یہ ’’اطلاع‘‘ نویرہ کو کسی ’’ملنے والی‘‘ نے دی تھی جو ’’اتفاقاً‘‘کسی کام سے اسپتال گئی تھی۔ نہ ’’ملنے والی ‘‘ خاتون کبھی منظر عام پر آئی، نہ ہی کسی نہ خورشید بیگم کی موجودگی اور ایڈمٹ ہونے کی وجہ معلوم کی۔ ڈاکٹرز نے بھی اسے ڈپریشن کا بتا کر فیس وصول کی اور معاملہ نمٹ گیا۔ 
یوں خورشید بیگم سرخرو ٹھہریں ۔ایک طرف سے لائن کلیئر کروا کر وہ دوسری جانب متوجہ ہو گئیں۔ ان کے روز روز کے فون اور التجا آمیز اصرار نے آخر کار عالم آراء کو ہاں کرنے پر مجبور کردیا مگر وہ خاندانی عورت تھیں۔ اتنے بحرانی حالت میں بھی عارف صاحب کی رائے لینی ضروری سمجھی۔اِدھر سے ہاں ہونے کے بعد دوسرے خاندان والوں کو بھی اطلاع دی۔ حالات کے پیشِ نظر بے حد سادگی سے ایک شام فرجاد سے غزالہ کا نکاح ہو گیا۔مشرف کی نافرمانی اور بے وفائی کے باوجود عارف صاحب عمیر اور دوسرے بچوں کے ساتھ نکاح میں شریک تھے۔ نرمین البتہ دوسرے شہر میں ہونے کی وجہ سے موجود نہ تھی۔ یہ دیکھ کر خاندان والوں کی زبان بند ہو گئی۔ یوسف صاحب نے بڑے بھائی کے ہاتھ پکڑے اور رو پڑے۔’’بھائی صاحب! مجھے معاف کر دیں،میں مشرف کی ہر غلطی کی سزا بھگتنے کے لئے تیا ر ہوں ۔ بس مجھے معاف کر دیں۔ آپ بڑے ہیں اور بڑوں کے دل بھی بڑے ہوتے ہیں۔ میں بہت شرمندہ ہوں۔ آپ سے آنکھ ملانے کے قابل نہیں۔وہ بچوں کی طرح بلک اُٹھے۔
(باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: