حسین شبکشی۔ الشرق الاوسط
2ملک ایسے ہیں جنہیں بہت غور سے دیکھنا ہوگا۔ یہ دونوں مستقبل میں اقتصادی اورسیاسی اعتبار سے حد درجہ متاثر ہونگے۔میری مراد امریکہ اور روس سے نہیں ۔ عام طور پر اقتصادی اور سیاسی طاقتوں کا تذکرہ ہوتا ہے تو ذہن انہی دونوں ملکوں کی طرف جاتا ہے۔ یہ دونوں ملک مختلف محاذوں پر مسلسل برسر پیکار ہیں۔ یہ ممالک میرے مقصود نہیں ۔میری مراد چین اور ہندوستان سے ہے۔ چین عالمی سطح پر اہم ، موثر اور مضبوط اقتصادی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آرہا ہے۔ چین میں کچھ بھی ہوتا ہے تو اس کی صدائے بازگشت عالمی سطح پر سنی جاتی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ان دنوں چین میں تشویش اور خوف کی لہر چل پڑی ہے۔ چین نے آخری 30برس کے دوران اپنی تاریخ میں پہلی بار انتہائی معمولی شرح نمو حاصل کی ہے۔ چین اب پہلے کی طرح شرح نمو والا ملک نہیں رہا۔چین میں متوسط آمدنی والے باشندوں کی تعداد روز افزوں ہے۔ چین پائدار شکل میں شرح نمو برقرار نہیں رکھ سکتا۔وجہ یہ ہے کہ جب سے موجودہ صدر برسراقتدار آئے ہیں تب سے ناکام اور غیر پیداواری سرکاری کمپنیوں کی مدد کی شرح ہیبتناک حد تک بڑھتی چلی جارہی ہے۔پبلک سیکٹر میں زبردست کمپنیوں کے حوالے سے چین کی ایک تاریخ ہے۔ یہ وسیع و عریض بھی ہے اور پرانی بھی۔بجلی سے لیکر فولاد اور مواصلات تک 34فیصد سرکاری کمپنیاں خسارے میں جارہی ہیں۔
چین نے جب اپنے اقتصادی ڈھانچے میں زبردست تبدیلیاںکی تھیں تب اس کے نجی اداروں نے غیر معمولی منافع دیا تھا۔ کامیابی کے جھنڈے گاڑے تھے۔ اقتصادی کارناموں ، نئی ملازمتیں پیدا کرنے کے حوالے سے جتنی کامیابیاں ملیں وہ سب کی سب نجی اداروں کی دین تھیں۔آج کا منفرد چین انہی نجی اداروں کا پھل کھا رہاہے مگر صورتحال اب بدلنے لگی ہے۔ جب سے موجودہ صدر نے اقتدار کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی ہے تب سے چین نے نجی اداروں سے منہ پھیرلیا ہے۔ سرکاری اداروں کی پشت پناہی کی پالیسی اپنا لی ہے۔ 2016ء میں نجی اداروں کو دیئے جانے والے قرضوں کی شرح 11فیصد اور سرکاری اداروں کو دیئے جانے والے قرضوں کا تناسب 83فیصد ریکارڈ پر آیا۔ یہ انتہائی خوفناک تبدیلی ہے۔6برس پہلے کے مقابلے میں صورتحال بالکل مختلف ہے۔ 6سال پہلے سرکاری اداروں کو دیئے جانے والے قرضوں کا تناسب 48اور نجی اداروں کو دیئے جانے والے قرضوں کی شرح 36فیصد تھی۔ نئی تبدیلی کا بوجھ چینی معیشت کے کاندھوں پر آگیا ہے۔بین الاقوامی معیشت بھی اس سے متاثر ہوگی۔
چین نے پہچان یہ بنائی کہ جب جب افق پر کسی بحران کی علامتیں نظر آتی ہیں تب تب چین اپنی معیشت میں زبردست دَھن جھونک دیتا ہے۔ بیشترحالات ایسے ہیں جب قرضہ دینے اور لینے والے دونوں فریق سرکاری ہوتے ہیں۔ 2008ء کے مالیاتی بحران کے بعد حکومت چین نے مجموعی قومی پیداوار کے حوالے سے شرح نمو12فیصد برقرار رکھنے کیلئے معاشی نظام کو زبردست مالی مدد فراہم کی تھی۔ اس مدد کی بدولت شرح نمو برقرار رہی لیکن اس کی قیمت بڑی مہنگی چکانی پڑی۔اس کی وجہ سے سرکاری قرضے کی شرح مجموعی قومی پیداوار کے حوالے سے 253فیصد تک پہنچ گئی۔
اگر امریکہ چین کو قابو کرنے میں کامیاب ہوجائے اور اس سے اپنی شرطیںمنوالے تو ایسی صورت میں مذکورہ تبدیلی کے بھیانک نتائج سامنے آئیں گے۔ دوسری جانب چین کو وینز ویلا کے سیاسی حالات کی وجہ سے بھی زبردست خسارے کا سامنا کرنا پڑیگا۔
جہاں تک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہند کا تعلق ہے تو وہاں پارلیمانی انتخابات ہونیوالے ہیں۔پوری دنیا اس پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ ہندوستان میں موجودہ حکمراں جماعت انتہا پسندانہ نظریات کی حامل ہے جس سے نسلی تفریق اور دیوار سے لگانے والی نفرت کا ماحول برپا ہوا ہے۔گزشتہ سال 3بڑے صوبوں میں حکمراں جماعت انتخابات ہار چکی ہے۔ ایسالگتاہے کہ اب ہندوستانی اپنی غلطی کی اصلاح کرکے ایک بار پھر میانہ روی کی طرف واپس آنا چاہتے ہیں۔پوری دنیا ہندوستانی انتخابات پر اس لئے نظر رکھے ہوئے ہے کہ دیکھیں وہاں جمہوریت کا ماحول ایک بار پھر برپا ہوتا ہے یا نہیں۔