Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہمیں کیوں پیدا کیا گیا؟

اللہ تعالیٰ نے آسمان سے کتابیں اور صحائف نازل فرمائے اور مختلف اوقات و ادوار میں مختلف علاقوں میں انبیا و رسل مبعوث فرمائے، تاکہ وہ لوگوں کو عبادتِ الٰہی کی طرف تو جہ دلاتے اور اس کی یاد دہانی کرواتے رہیں

محمد منیر قمر ۔ الخبر

سورۃ الذاریات (آیت: ۵۶) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ’’اور میں نے جن اور آدمی اسی لیے پیدا کیے ہیں کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘ تمام انبیاکی دعوت و تبلیغ کا مر کزی موضوع وحدانیت وعبادتِ الٰہی ہےاس سلسلے میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ توحید وعبادت انسان کا وہ بنیادی فریضہ ہے، جس کی طرف دعوت دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آسمان سے کتابیں اور صحائف نازل فرمائے اور مختلف اوقات و ادوار میں مختلف علاقوں میں انبیا و رسل مبعوث فرمائے، تاکہ وہ لوگوں کو عبادتِ الٰہی کی طرف تو جہ دلاتے اور اس کی یاد دہانی کرواتے رہیں۔ چنانچہ قرآن کریم کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ تمام انبیاے کرام نے اپنی اپنی امتوں کو اللہ کی وحدانیت و عبادت کا درس دیا تھا، جس کا پتا سورۃ الانبیاء (آیت: ۲۵) ہی سے پتا چل جاتا ہے، جس میں امام الانبیاء و خاتم المرسلین حضرت محمد مخاطب ہو کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

{وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ} ’’اور جو پیغمبر ہم نے آپ سے پہلے بھیجے ان کی طرف یہی وحی بھیجی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری ہی عبادت کرو۔‘‘ نیز سورت یٰسین (آیت: ۶۰، ۶۱) میں ارشادِ الٰہی ہے ’’اے آدم کی اولاد! ہم نے تم سے کہہ نہیں دیا تھا کہ شیطان کو نہ پوجنا (اس کی عبادت نہ کرنا) وہ تمھارا کھلا دشمن ہے اور یہ کہ میری ہی عبادت کرنا یہی سیدھا راستہ ہے۔‘‘ یعنی اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنا اور یہی وہ راستہ ہے جس کی طرف تمام انبیاؑلوگوں کو بلاتے رہے اور یہی منزلِ مقصود، یعنی جنت تک پہنچانے والا عمل ہے۔ سورۃ الاعراف (آیت: ۵۹) میں حضرت نوحؑکے بارے میں ارشادِ الٰہی ہے کہ انھوں نے اپنی قوم کے ساتھ کیسے خطاب فرمایا تھا:

’’ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انھوں نے (ان سے) کہا: اے میری برادری کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو، اُس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں، مجھے تمھارے بارے میں بڑے دن کے عذاب (ہی) کا ڈر ہے۔‘‘ مگر شرک انسان کی عقل کو ماؤف کر دیتا ہے، اس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رہتی، تب انسان کو ہدایت، گمراہی اور گمراہی، ہدایت نظر آتی ہے، چنانچہ قومِ نوح ؑکو بھی یہی قلبِ ماہیت ہوئی، ان کو حضرت نوحؑجو اللہ کی توحید کی طرف اپنی قوم کو دعوت دے رہے تھے، نعوذ باللہ گمراہ نظر آتے تھے۔ اسی طرح سورۃ الاعراف کی آیت (۶۵) میں قومِ عاد کی طرف بھیجے گئے نبی حضرت ہودؑ کے بارے میں ارشادِ الٰہی ہے: ’’اور (اسی طرح) قومِ عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا، انھوں نے کہا کہ بھائیو! اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمھارا کو ئی معبود نہیں، کیا تم ڈرتے نہیں؟‘‘ یہ قومِ عاد جن کی رہایش یمن میں ریتلے پہاڑوں میں تھی اور اپنی قوت و طاقت میں بے مثال تھی، ان کی طرف حضرت ہودu جو اس قوم کے ایک فرد تھے، اس قوم کے نبی بن کر آئے۔ تھوڑا آگے چل کر اسی سورت اعراف کی آیت (۷۳) میں قومِ ثمود کی طرف بھیجے گئے نبی حضرت صالحؑ کے بارے میں ارشادِ الٰہی ہے :’

’اور ہم نے قومِ ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا (تو ) صالح نے کہا کہ اے قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں، تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے ایک معجزہ آچکا ہے (یعنی ) یہی اللہ کی اونٹنی تمھارے لیے معجزہ ہے تو اسے (آزاد) چھوڑ دو تاکہ اللہ کی زمین میں چرتی پھرے اور تم اسے بری نیت سے ہاتھ بھی نہ لگانا، ورنہ دردنا ک عذاب تمھیں پکڑ لے گا۔‘‘ بعض روایات میں ہے کہ انھوں نے اپنے پیغمبر سے مطالبہ کیا کہ پتھر کی چٹان سے ایک گابھن اونٹنی نکال کر دکھائی جائے جسے نکلتے ہوئے وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ حضرت صالح علیہ السلام نے ان سے عہد لیا کہ اس کے بعد بھی اگر ایمان نہ لائےتو وہ ہلاک کر دیے جائیں گے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مطالبے پرظاہر فرما دی۔ اس اونٹنی کی بابت انھیں تاکید کر دی گئی کہ اُسے بُری نیت سے کوئی شخص ہاتھ نہ لگائے، ورنہ تم عذابِ الٰہی کی گرفت میں آجاؤ گے، لیکن ظالموں نے اونٹنی کو بھی قتل کر ڈالا، جس کے تین دن بعد انھیں چنگھاڑ (سخت چیخ) اور رجفہ (زلزلے) کے عذاب سے ہلاک کر دیا گیا جس سے وہ اپنے گھروں میں اوندھے کے اوندھے پڑے رہ گئے۔ ان پر دو قسم کے عذاب آئے۔ اوپر سے سخت چیخ اور نیچے سے زلزلہ۔ ان دونوں عذابوں نے انھیں تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ سورۃ العنکبو ت (آیت: ۱۶) میں حضرت ابراہیم خلیلؑ کے بارے میں فرمانِ الٰہی ہے: ’اور ابراہیم کو (یاد کرو) جب انھوں نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو، اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو یہ تمھارے حق میں بہتر ہے۔‘‘ سورت یٰسین (آیت: ۲۲) میں اسرائیل کے ایک شخص، جس کا نام مفسرین نے حبیب نجار ذکر کیا ہے، کے یہ الفاظ منقول ہیں: ’’اور مجھے کیا ہے کہ میں اس کی عبادت و پرستش نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا اور اسی کی طرف تم کو لوٹ کر جانا ہے؟‘‘ آپ اندازہ کریں کہ وہ کتنا نیک اور اﷲ کا عبادت گزار بندہ ہوگا جس کا ذکر قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے سورت ہود کی دوسری آیت میں امتِ مسلمہ کو حکم دیتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے فرمایا:

’’(وہ یہ) کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور میں اس کی طرف سے تمھیں ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والاہوں۔‘‘ سورت بنی اسرائیل (آیت: ۲۳) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُھُمَآ اَوْ کِلٰھُمَا فَلَا تَقُلْ لَّھُمَآ اُفٍّ وَّ لَا تَنْھَرْ ھُمَا وَ قلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا} ’’اور تمھارے رب نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو، اگر ان میں سے ایک یا دو نوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک نہ کہنا اور نہ انھیں جھڑکنا اور ان سے بات ادب سے کرنا۔‘‘ اس آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے جس سے والدین کی اطاعت، ان کی حرمت اور ان کے ادب و احترام کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے ، یعنی ربوبیتِ الٰہی کے تقاضوں کے ساتھ اطاعتِ والدین کے تقاضوں کو ادا کرنا ضروری ہے۔ سورت بقرہ (آیت: ۱۳۳) میں ہے کہ حضرت یعقوبؑ نے وفات کے قریب اپنے بیٹوں سے پوچھا: ’’بھلا جس وقت یعقوب وفات پانے لگے تو تم اس وقت موجود تھے، جب انھوں نے اپنے بیٹوں سے پو چھا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ انھوں نے کہا کہ آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا ابرہیم اور اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے جو معبودِ یکتا ہے اور ہم اسی کے فرماں بردار ہیں۔‘‘ سورۃ الزمر (آیت: ۲)

میں اللہ رب العالمین نے اپنے آخری نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوکر فرمایا ہے: { اِِنَّآ اَنْزَلْنَا اِِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہٗ الدِّیْنَ} ’’(اے پیغمبر!) ہم نے یہ کتاب آپ کی طرف سچائی کے ساتھ نازل کی ہے تو اللہ کی عبادت کریں (یعنی) اس کی عبادت کو (شرک سے) خالص کر کے۔‘‘ نیز اسی سورۃ الزمر (آیت: ۶۶) میں فرمایا ہے : {بَلِ اللہَ فَاعْبُدْ وَکُنْ مِّنَ الشّٰکِرِیْنَ} ’’ بلکہ اللہ ہی کی عبادت کریں اور شکر گزار وں میں رہیں۔‘‘ سورۃ الحجر (آیت: ۹۸، ۹۹) میں نبی اقدس سے مخاطب ہو کر فرمایا ہے: ’’اپنے رب کی تسبیح کہتے اور (اس کی) خوبیاں بیان کرتے رہیں اور سجدہ کرنے والوں میں داخل رہیں اور اپنے رب کی عبادت کیے جائیں، یہاں تک کہ آپ کی موت (کا وقت) آجائے۔‘‘ غرض تمام انبیا و رسل نے اپنی اپنی قوموں کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت و عبادت کی دعوت دی تھی، حتی کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآنِ کریم کو نازل فرمایا اور اپنے پسندیدہ دینِ اسلام کی تکمیل فرمائی اور اپنے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تو اپنی کتابِ خالد قرآنِ کریم میں یہ اعلان فرما دیا کہ جن و انس کی تخلیق کی غرض و غایت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اپنے رب یعنی پروردگار کی حیثیت سے پہچانیں اور صرف اسی کی عبادت کریں اور انسان وجنات کی تخلیق کا مقصدِ وحید ہی عبادت قرار پایا ہے، جیسا کہ سورۃ الذاریات (آیت: ۵۶) میں ارشادِ الٰہی ہے: { وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنْسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ} ’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘

محاسبہ نفس

- - - - - - - - - -

: ہر انسان جو عاقل وبالغ اور صاحبِ ہوش و خرد ہے، اس پر واجب ہے کہ وہ اپنے نفس سے سوال کرے، اپنے ضمیر کو ٹٹولے اور اپنے گریبان میں جھانکے، بلکہ اپنے من میں ڈوب کر ’’سراغِ زندگی‘‘ پا جانے کی کوشش کرے اور اس کے لیے اپنے آپ سے پوچھے: میں اس دنیا میں کیوں پیدا کیا گیا ہوں؟ اس زمین پر میری ڈیوٹی کیا ہے؟ مجھے ساری کائنات سے ممتاز کیوں بنایا گیا ہے؟ انسان کی فوقیت و برتری اور ممتاز مقام کا ثبوت تو خود قرآنِ کریم میں مذکور ہے، چنانچہ سورت بنی اسرائیل (آیت: ۷۰) میں ارشادِ الٰہی ہے: ’’اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو جنگل اور دریا میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی۔‘‘ یہ شرف و فضیلت اور یہ حیثیت ہر انسان کو حاصل ہے، چاہے مومن ہو یا کافر، کیونکہ یہ شرف دوسری مخلوقات، حیوانات، جمادات اور نباتات وغیرہ کے مقابلے میں ہے اور یہ شرف متعدد اعتبار سے ہے، جس طرح کی شکل و صورت، قدو قامت اور ہیئت اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کی ہے، وہ کسی دوسری مخلوق کو حاصل نہیں۔ جب بحیثیت انسان، چاہے مسلم ہو یا کافر، اسے بہت سی مخلوقات پر فضیلت وبرتری اور فوقیت و امتیاز حاصل ہے تو جب یہی انسان نہ صرف محض کلمہ گو مسلمان بلکہ باعمل مومن ہو تو اپنے ایمان و عمل اور اللہ کی عنایت سے وہ تمام مخلوقات حتیٰ کہ فرشتوں سے بھی بالاتر ہو جاتا ہے، جس کا واضح ثبوت اسراء و معراجِ مصطفیکی جزئیات پر غور کرنے ہی سے مل جاتا ہے۔ انسان اس پوری کائنات کا سرتاج (Crown of creation) ہے، بشرطیکہ مکمل انسان، صاحبِ ایمان اور ساتھ ہی ساتھ عملِ صالح پر کاربند ہو، اگر یہ محنت و عبادت کر نے والا ہے تو فرشتوں سے بھی افضل ہوجائے گا۔ بقول شاعر ؎ فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ غرض انسان کو چاہیے کہ اس فوقیت وبرتری اور امتیاز کا سبب تلاش کرے، اپنی تخلیق و پیدایش کا مقصد ڈھونڈے اور اپنی ڈیوٹی و ذمے داری کا سراغ لگا ئے۔ اہلِ ایمان وعمل کو تو اس کا جواب معلوم ہوتا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ہر صانع کو اپنی مصنوعات کے بھید معلوم ہوتے ہیں کہ اس نے انھیں اس شکل و صورت میں کیوں تیار کیا ہے؟ انسان کا صانع یا خالق یعنی اس کا پیدا کرنے والا اور اس کے تمام ا مور ومعاملات کی تدبیر کر نے والا چونکہ اللہ تعالیٰ ہے، لہٰذا آیئے اپنے رب ہی سے پوچھ لیتے ہیں کہ اے اللہ! تونے اس کو کیوں بنایا؟ کیا اسے صرف کھا نے پینے کیلئے بنایا گیا ہے ؟ کیا اس کی تخلیق کا مقصد صرف لہو ولعب اور کھیل کود ہی ہے؟ کیا اسے محض اس لیے وجود میں لایا گیا ہے کہ زمین پر چلے پھر ے اور زمین سے پیدا ہونے والی تمام اشیا کو بے دریغ استعمال کرے اور پھر مر کر مٹی ہو جائے اور قصہ ختم۔۔۔؟ نہیں، ہر گز نہیں، کیونکہ سورۃ الذاریات (آیت: ۵۶) میں ارشادِ الٰہی ہے: ’’اور میں نے جن اور انسان اسی لیے پیدا کیے ہیں کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘ انبیا:کی بعثت کا بڑامقصد: انبیاؑکی بعثت کا سب سے بڑا مقصد ہی یہ تھا کہ لوگوں کو کہیں کہ ایک اللہ کی عبادت کرو۔ کسی کو اس عبادت میں شریک نہ کرنا ہی توحید ہے اور یہی تمام انبیاؑ کا دین رہا ہے، جس کی تعلیم دے کر اللہ تعالیٰ نے انبیاؑو ا پنے بندوں کے پاس بھیجا۔ سب سے پہلے رسول حضرت نوحؑہیں۔ حضرت نوحؑاور حضرت آدمؑ کے درمیان دس صدیوں یا دس پشتوں کا فاصلہ ہے۔ حضر ت نوحؑسے کچھ پہلے تک تمام لوگ اسلام پر قائم چلے آرہے تھے، پھر سب سے پہلے توحید سے انحراف اس طرح آیا کہ اس قوم کے صالحین فوت ہوگئے تو ان کے عقیدت مندوں نے ان پر سجدہ گاہیں (عبادت خانے) قائم کر دیے اور ان کی تصویریں بھی وہاں لٹکا دیں، مقصد ان کا یہ تھا کہ اس طرح ان کی یاد سے وہ بھی اللہ کا ذکرکریں گے اور ذکرِ الٰہی میں ان کی مشابہت اختیار کریں گے۔ جب کچھ وقت گزرا تو انھوں نے ان تصویروں کے مجسمے بنا دیے، پھر کچھ اور عرصہ گزرنے کے بعد مجسمے بتوں کی شکل اختیار کرگئے، پھر ان کی پوجا پاٹ شروع ہوگئی اور قومِ نوحؑکے یہ صالحین: ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر معبود بنا لیے گئے۔ جیسے ہی ان صالحین کے بارے میں ان کی قوم نے غلو کرنا شروع کیا تو اللہ تعالیٰ نے نوحؑکو نبی بناکر ان کی ہدایت کے لیے بھیجا، جنھوں نے ساڑھے نو سو سال تبلیغ کی، یعنی لوگوں کو اللہ کے دین کی دعوت دی، لیکن تھوڑے سے لوگوں کے سوا کسی نے آپ کی تبلیغ کا اثر قبول نہیں کیا، یعنی حق کو دیکھتے تھے، مگر اس کو اپنا نے کے لیے تیار نہ تھے، بالآخر اہلِ ایمان کے سوا سب کو غرق کر دیا گیا۔ یہ وہی تابوت یا بزرگوں کے مجسمے تھے جن کا سب سے آخری رسول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے خاتمہ فرمایا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم جس قوم کی طرف بھیجے گئے وہ لوگ بھی اللہ کی عبادت و بندگی اور اس کا ذکر کرتے تھے۔ حج اور صدقات و خیرات بھی کرتے تھے، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اپنے اور اللہ کے درمیان بزرگوں اور بعض مخلوق مثلاً ملائکہ، عیسیٰ، مریم یا دوسرے نیک لوگوں کا واسطہ بناتے اور کہتے تھے کہ ان کے ذریعے ہم اللہ کا تقرب چاہتے ہیں اور اللہ کے یہاں ان بزر گوں کی شفاعت کے امیدوار ہیں۔ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا کہ آپ حضرت ابراہیمؑکے دین کی تجدید فرمائیں اور لوگوں پر یہ واضح کردیں کہ یہ تقرب اور اعتقاد صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے ۔ کسی اور کا تو ذکر ہی کیا، کسی مقرب فرشتے اور رسول کے بارے میں بھی یہ عقیدہ نہیں رکھا جاسکتا ۔

شیئر: