’ڈالر کا بائیکاٹ‘: کیا اس مہم سے قیمت کم ہو جائے گی؟
ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر پاکستانیوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے
پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں روز بروز اضافے سے روپے کی قدر میں کمی ہورہی ہے، ماہرین کہتے ہیں کہ ڈالرکی قیمت مزید بڑھے گی اور اس سے ملکی معیشت بھی متاثر ہوگی۔
ماہرین نے تو اپنی رائے دی ہے لیکن سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھی صارفین نے ڈالر کے ملکی معیشت پر اثرات کے بارے میں ایک’ہیش ٹیگ بائیکاٹ ڈالر‘ کے نام سے شروع کیا ہے اور اس پر اپنی رائے دے رہے ہیں۔
بائیکاٹ ڈالر کا ہیش ٹیگ لگا کر پاکستان کے ایک معروف صحافی انصارعباسی نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ’ اس مہم کا مقصد پاکستانی کرنسی اور معیشت کو ڈالرائزیشن کے تباہ کن اثرات سے بچانا ہے، پاکستانیوں سے درخواست ہے کہ وہ ڈالرز خرید کر جمع کرنے سے اجتناب کریں۔‘
ایک ٹوئٹر صارف مناہل نے ٹویٹ کی ہے کہ ہمارا ملک بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’بہت سارے لوگ اس صورت حال کا استحصال کر رہے ہیں اور پاکستانی روپوں کو ڈالرز میں بدل رہے ہیں، اس سے ہمارا قومی کردار واضح ہوتا ہے کاش کہ ہم بھی ایسا ہی حب الوطنی کا جذبہ رکھتے جیسا ترکی کے لوگوں کا ہے۔‘
معاذ عبدالوہاب نے ٹویٹ کی کہ’ کچھ مہینے پہلے جب ترکی میں کرنسی کا بحران ہوا تو ترکی کے عوام نے ہر ڈالر بیچا جبکہ دوسری جانب پاکستانی قوم ڈالرز جمع کر رہی ہے اور حالات کو مزید خراب بنا رہی ہے۔‘
ایک اور صارف تحریم عزیم لکھتی ہے کہ بائیکاٹ ڈالر کے حوالے سے ان کو کوئی معلومات نہیں لیکن وہ سوال کرتی ہے کہ ’ کیا ڈالر کا بائیکاٹ کرنے سے واقعی اس کی قیمت کم ہو جائے گی ؟ لولز۔‘
مزمل صائم نامی صارف لکھتے ہیں کہ’ کوشش کریں کہ پاکستان کی بنی ہوئی اشیا خریدی جائیں، مشروبات کا بائیکاٹ کیا جائے اور پاکستان کے مستقبل کے لیے پاکستان کی بنی ہوئی اشیا خریدی جائیں۔‘
عبدالوحید آفریدی نامی صارف نے ٹویٹ کی کہ’ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر قوم مشکل وقت کا سامنا کرتی ہے لیکن اتحاد اور یگانگت سے مشکلات کو شکست دی جاسکتی ہیں معاشی بحران کے اس وقت میں، آئیں اس بات کا اعادہ کریں کہ ’ ڈالر کا بائیکاٹ کریں اور ڈالرز کا ذخیرہ کرنے سے اجتناب کیا جائے۔‘
ایک اور صارف محمد شعیب نے ہیش ٹیگ بائیکاٹ ڈالر کے ساتھ لکھا ہے کہ ’ روپے کی قدر کریں اور اپنی ذمہ داری ادا کریں۔‘
مجموعی طور پر پاکستانی سوشل میڈیا صارفین کی رائے ہے کہ ڈالر کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ڈالر کی ’ذخیرہ اندوزی‘ نہ کی جائے اور پاکستانی اشیا پر بھروسہ کیا جائے۔