جنگ نہیں چاہتے،سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ عادل الجبیر
سعودی عرب نے کہا ہے کہ خطے میں جنگ روکنا چاہتا ہے اور اب گیند ایران کے کورٹ میں ہے۔
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق سعودی عرب کے ایک سینئر عہدیدار نے اتوار کو کہا ہے کہ سعودی عرب خطے میں جنگ روکنا چاہتا ہے لیکن سعودی تیل کی تنصیبات پر گذشتہ ہفتے ہونے والے حملوں کے تناظر میں پوری قوّت اور عزم سے ردعمل دینے کے لیے تیار کھڑا ہے۔
ریاض نے منگل کو تیل کے دو پمپنگ سٹیشنوں پر ڈرون حملے کا الزام تہران پر عائد کیا تھا۔ یہ حملہ متحدہ عرب امارات کے پانیوں میں دو سعودی آئل ٹینکرز سمیت 4 ٹینکرز کو ’سبوتاژ‘ کیے جانے کے واقعے کے بعد ہوا۔ ایران نے ان حملوں کی پشت پناہی کی تردید کی ہے۔
سعودی وزیرمملکت برائے خارجہ عادل الجبیر نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ ’سعودی حکومت خطے میں جنگ چاہتی ہے نہ ہی اس کے لیے کوئی کوشش کرتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’سعودی حکومت اس جنگ سے بچنے کے لیے جتنا ہوسکا کرے گی لیکن دوبارہ واضح کردیں کہ اگر دوسرا فریق جنگ کا انتخاب کرے گا تو پوری طاقت کے ساتھ موثر جواب دیا جائے گا اور سعودی حکومت اپنا اور اپنے مفادات کا بھرپور دفاع کرے گی۔‘
سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے اتوار کو خلیج اور عرب رہنماؤں کو حملے کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے مکہ میں 30 مئی کو ایک ہنگامی اجلاس میں شرکت کے لیے مدعو کیا ہے۔
دوسری جانب تیل پیدا کرنے والے اہم ممالک اتوار کو ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی سے پیدا ہونے والے صورتحال پر غور کرنے کے لیے جدہ میں مل رہے ہیں۔ اوپیک اور اوپیک سے باہر تیل پیدا کرنے والے ممالک کا گروپ جو کہ اوپیک پلس کہلاتا ہے مشرق وسطیٰ کی کشیدگی کے تناظر میں تیل کی مارکیٹ کو مستحکم رکھنے کے لیے اقدامات پر غور کرے گا۔
اہم اوپیک ممبر اور دوسرے آئل سپلائر بشمول روس اوپیک پلس کی جانب سے گذشتہ برس تیل کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے لیے پیداوار میں کمی کے معاہدے پر عملدرآمد کا بھی جائزہ لیں گے۔
لیکن اوپیک پلس کے جدہ میں ہونے والے اجلاس میں ایران کا ایشو سرفہرست رہے گا۔ ایران اس اجلاس میں شرکت نہیں کر رہا ہے۔
خیال رہے کہ سعودی عرب نے گذشتہ دنوں متحدہ عرب امارات کے ساحل کے قریب سعودی آئل ٹینکر پر ہونے والے حملے کا الزام کسی پر عائد نہیں کیا۔ ابھی تک کسی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم، امریکی حکومت کے ذرائع نے گذشتہ ہفتے اپنے بیان میں کہا تھا کہ امریکہ کے سرکاری عہدیداروں کا خیال ہے کہ ایران نے حوثی باغیوں کو ان حملوں کی ترغیب دی ہے۔
یمن میں سعودی اتحاد کے خلاف برسرپیکار حوثی باغیوں نے سعودی عرب کے آئل پمپنگ سٹیشنوں پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
وانشگٹن نے ایران پر معاشی پابندیاں سخت کرتے ہوئے تیل کی برآمد پر پابندی لگادی تھی اور خیلج میں اپنی عسکری طاقت مضبوط کرنے کے لیےطیارہ بردار بحری بیڑہ بھی روانہ کردیا تھا۔ امریکہ کی جانب سے یہ اقدامات ان بیانات کے تناظر میں کیے گئے ہیں جن میں کہاگیا تھا کہ ایران امریکی مفادات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
سعودی ولی عہد کا امریکی وزیرخارجہ کو فون
سعودی میڈیا منسٹری نے اتوار کو اپنی ٹویٹ میں بتایا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو کے ساتھ ٹیلیفونک رابطے میں امن و استحکام کے لیے کیے جانے والے اقدامات سمیت خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
ایران کے وزیرخارجہ جواد ظریف نے جنگ کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تہران تنازعہ نہیں چاہتا تاہم، بحرین نے سنیچر کو اپنے شہریوں کو ایران اور عراق کا سفر کرنے سے روکا تھا اور اور ان دونوں ممالک میں پہلے سے موجود اپنے شہریوں کو فوری طور پر واپس آنے کی بھی ہدایت کی تھی۔
بحرین نے یہ انتباہ ’غیر مستحکم علاقائی حالات اور ممکنہ خطرات کے پیش نظر جاری کیا تھا۔