پاکستان کو درپیش نسل در نسل مہاجرین کا پیچیدہ مسئلہ
پاکستان کو درپیش نسل در نسل مہاجرین کا پیچیدہ مسئلہ
بدھ 19 جون 2019 3:00
زبیر علی، توصیف رضی ملک
پاکستان میں مہاجرین کی کل تعداد 47 لاکھ ہے۔ تصویر: اے ایف پی
آج دنیا بھرمیں مہاجرین کا دن منایا جا رہا ہے۔
پاکستان کی تاریخ سے مہاجرین کا گہرا واسطہ ہے۔ 1947 میں قیام پاکستان کے فوراً بعد اس نوزائیدہ مملکت کو ہندوستان سے آنے والے لاکھوں مہاجرین کا بوجھ برداشت کرنا پڑا، پھر 1970 کے بعد بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے لاکھوں مہاجرین نے اس ترقی پذیر ملک میں پناہ حاصل کی اوران میں سے بیشتر آج بھی یہاں مقیم ہیں۔
اقوام متحدہ کے کمشنر برائے مہاجرین کے مطابق آج بھی پاکستان میں 14 لاکھ سے زائد رجسٹرڈ اور ساڑھے آٹھ لاکھ سے زائد غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین ہیں جبکہ سات ہزار کے قریب صومالیہ اور چند دیگر ممالک کے پناہ گزین موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کے تازہ اعدادو شمار کے مطابق دنیا بھر میں گھروں سے جبراً بے دخل ہونے والے افراد کی تعداد سات کروڑ ہے۔
دوسرے اندازوں کے مطابق پاکستان میں بنگلہ دیش اور برما کے تقریباً 20 لاکھ کے قریب غیر رجسٹرڈ پناہ گزین بھی موجود ہیں جن کو اقوام متحدہ ایسے پناہ گزین تصور کرتا ہے جن کا کوئی وطن نہیں ہوتا، یعنی ان کو نہ تو وہ ملک اپنا شہری تسلیم کرتا ہے جہاں سے وہ آئے ہوتے ہیں اور نہ ہی جہاں وہ پناہ گزین ہوتے ہیں۔ ان کے حالات ان مہاجرین سے بدتر ہوتے ہیں جن کو اپنے آبائی وطن کی شہریت حاصل ہوتی ہے اور وہ کسی بھی وقت واپس جا سکتے ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کا مسئلہ بھی کافی پیچیدہ ہو گیا ہے۔
بہت سے افغان مہاجرین نے پاکستان میں باقاعدہ طور پر سکونت اختیار کر لی ہے اور وہ واپس جانے پر تیار نہیں ہیں۔ نہ ہی افغان حکومت ان کی واپسی کے لیے حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
پاکستان افغان مہاجرین کو اپنی معیشت پر بوجھ اور مکمل امن کے قیام میں ایک رکاوٹ قرار دیتا ہے اور ان کو بار بار جلد واپس جانے کی ہدایت کرتا رہتا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق ان مہاجرین کو زبردستی واپس نہیں بھیجا جا سکتا کیونکہ ان کو افغانستان میں سلامتی، صحت اور تعلیم کی سہولتوں کی عدم دستیابی جیسے مسائل درپیش ہیں۔
پاکستان ان مہاجرین کے ملک میں قیام کے اجازت نامے میں سالانہ بنیادوں پر توسیع کرتا ہے اور موجودہ اجازت نامہ 30 جون کو ختم ہو رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے حکام کو توقع ہے کہ پاکستان کی وفاقی کابینہ اگلے ہفتے ہونے والے اجلاس میں اس اجازت نامے میں توسیع کر دے گی جس کے بعد افغان مہاجرین پاکستان میں مزید قیام کر سکیں گے۔
کمشنر برائے مہاجرین کے ترجمان قیصرآفریدی کے مطابق 2002 سے اب تک 44 لاکھ افغان مہاجرین پاکستان سے وطن واپس لوٹ چکے ہیں۔
اس وقت پاکستان میں موجود افغان مہاجرین میں سے ایک بڑی تعداد تقریباً 8 لاکھ خیبر پختونخوا میں، جبکہ 3 لاکھ 20 ہزار افغان مہاجرین صوبہ بلوچستان میں مقیم ہیں۔ ایک لاکھ 60 ہزار پنجاب، جبکہ 63 ہزارافغان پناہ گزین سندھ میں مقیم ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور آزاد کشمیر میں بھی رہائش پذیر ہیں ۔
قیصر آفریدی نے ’اردو نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 14 لاکھ افغان پناہ گزینوں کے پاس پی او آر( پروف آف رجسٹریشن) کارڈ موجود ہیں جو حکومت پاکستان کی جانب سے جاری کیے گئے ہیں۔ ملک بھر میں افغان پناہ گزینوں کے لیے اس وقت 56 کیمپ موجود ہیں۔ صرف 4 لاکھ 46 ہزار افغان مہاجرین ان کیمپوں میں مقیم ہیں باقی 62 فیصد افغان مہاجرین ملک کے مختلف شہروں میں رہائش پذیرہیں۔
بہت سے ایسے افغان شہری بھی پاکستان میں مقیم ہیں جو مہاجرین کی کیٹگری میں نہیں آتے اور حکومت پاکستان نے ان کو افغان ’سٹیزن‘ کارڈ جاری کیے ہوئے ہیں ۔
حکومت پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق ساڑھے 8 لاکھ افغان شہریوں کو افغان سٹیزن کارڈ جاری کیے گئے ہیں جو کہ اس سے قبل غیر قانونی طور پر پاکستان میں رہائش پذیر تھے۔ اس کے علاوہ 5 لاکھ افغان شہری اب بھی ایسے موجود ہیں جو تاحال رجسٹرڈ نہیں ہوئے۔
اپنے ہی وطن میں پناہ گزین
1971 میں مشرقی پاکستان کی علیٰحدگی کے بعد ایسے لوگ اپنے ہی وطن میں اجنبی ہو گئے جن کی نسل تو بنگالی تھی لیکن انہوں نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور پاکستان کو اپنا وطن مانتے ہوئے اس کے سب سے بڑے شہر کراچی آ گئے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دہائیوں بعد بھی اپنے ہی ملک میں پناہ گزین کے طور پر رہ رہے ہیں۔
ان کو نہ تو بنگلہ دیش اپنا شہری تسلیم کرتا ہے اور نہ ہی پاکستان، لہٰذا آج بھی لاکھوں بنگالی اپنی شناخت کی تلاش میں 48 سال بعد بھی کراچی میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ لاکھوں دوسرے بنگلہ دیش میں مجبوری کی زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ ان کو پاکستان پناہ دینے سے انکاری ہے اور بنگلہ دیش بھی انہیں اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتا۔
بنگالی پناہ گزینوں کی تنظیم ’پاک بنگالی اتحاد‘ کے جنرل سکرٹری شیخ سراج کے مطابق کراچی کے مختلف اضلاع میں 20 لاکھ سے زائد بنگالی آباد ہیں لیکن انہیں بنیادی انسانی حقوق میسر نہیں۔
ان کے مطابق چونکہ حکومت ان کی شناخت تسلیم ہی نہیں کرتی لہٰذا ان کی بہبود کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جاتے۔
جن افراد کو پہلے قومی شناختی کارڈ جاری کیے گئے تھے، کمپیوٹرائزڈ نظام آنے کے بعد ایسے افراد کے کارڈز بلاک کر کے ان کے پورے خاندان کو بلیک لسٹ کیا جا رہا ہے۔
ان کو تعلیم، روزگار، صحت اور رہائش جیسی بنیادی سہولیات میسر نہیں کیونکہ حکومتی پالیسی کے تحت ان سب کاموں کے لیے قومی شناختی کارڈ کا ہونا ضروری ہے جو بنگالی پناہ گزینوں کو حاصل نہیں۔
کراچی میں مچھر کالونی، ضیا کالونی، موسیٰ کالونی اور ایسی کئی گنجان آباد بستیاں موجود ہیں جہاں رہائش کی بنیادی سہولیات بھی بمشکل دستیاب ہیں۔ شہر کی بنگالی آبادی کو انہی بستیوں تک محدود کردیا گیا ہے، اور ان کی آبادی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ 80 گز کے مکان میں اوسطاً 10 سے 15 افراد رہائش پزیر ہیں۔
روہنگیا مہاجرین
کراچی کے علاقے کورنگی اور لانڈھی کے قریب علی اکبر شاہ گوٹھ اور اراکان آباد میں برمی اور روہینگیا لوگ بھی آباد ہیں لیکن وہ اپنی شناخت بنگالی کے طور پرکرواتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں اس سے پاکستانی شہریت ملنے میں آسانی ہوگی۔
ان میں سے بیشتر وہ پناہ گزین ہیں جن کو 1962 میں اس وقت کے پاکستانی صدرجنرل ایوب خان نے میانمار میں مارشل لا کے نفاذ کے بعد انسانی ہمدردی کے طور پر پاکستان آنے کی دعوت دی تھی۔
برمی مسلم ویلفیئرآرگنائزیشن کے صدر نورحسن اراکانی نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ اب روہنگیا سہولیات حاصل کرنے کے لیے خود کو بنگالی ظاہر کرتے ہیں۔
اس وقت ان کی تیسری نسل پاکستان میں پیدا ہو رہی ہے پھر بھی وہ شناخت سے محروم ہیں۔
نور حسن نے بتایا کہ ان کی قومیت کی خواتین کو بچوں کی پیدائش کے وقت ہسپتال میں داخلہ تک نہیں ملتا کیونکہ ان کے پاس شناختی دستاویزات نہیں ہیں۔
جبکہ شناختی کارڈ کی عدم موجودگی کی وجہ سے مردوں کو مناسب روزگار حتٰی کہ ماہی گیری کا اجازت نامہ ملنا بھی ناممکن ہو چکا ہے۔
پاکستان میں عرصہ دراز سے موجود غیر ملکی مہاجرین اور پناہ گزینوں کی تکلیف دہ زندگیوں میں خوشی کا ایک لمحہ اس وقت آیا تھا جب وزیراعظم عمران خان نے اقتدارمیں آنے کے بعد ان کو پاکستانی شہریت دینے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم سیاسی تنازعے کے باعث یہ اعلان بھی بعد ازاں مصلحتوں کا شکار ہو گیا اور ان پناہ گزینوں کی سیاست کو پھر طول دے گیا۔