عرب تھیٹر کی ملکہ سمیحہ ایوب کا دعویٰ ہے کہ دنیا بھر میں کوئی نامی گرامی تھیٹر ایسا نہیں جہاں انہوں نے سٹیج ڈرامہ نہ کیا ہو۔ انہیں شام کے سابق صدر حافظ الاسد نے اول درجے کا قومی اعزاز پیش کرتے ہوئے ’تھیٹر کی ملکہ‘ کا خطاب دیا تھا۔
سمیحہ ایوب 8 مارچ 1932 کو مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کو مصر کے سابق صدر جمال عبدالناصر نے تمغہ جمہوریت سے نوازا اور فرانس کے سابق صدر جیسکار دیستاں سے ملک کا اعلیٰ ترین اعزاز ملا۔
60 برس سے زائد عرصے سے سٹیج ڈرامے کرنے والی سمیحہ ایوب نے ہدایتکار کے طور پر بھی کام کیا اور نیشنل تھیٹر کی ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر بھی فائز رہیں۔
عربی میں شائع ہونے والے ہفتہ وار میگزین ’المجلہ‘ نے سمیحہ ایوب سے ان کی زندگی، سٹیج ڈرامے، پسند اورناپسند کے بارے میں تفصیلی انٹرویو کیا۔
سمیحہ ایوب سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ سچ مچ واحد عرب فنکارہ ہیں جنہوں نے انٹرنیشنل تھیٹر کے لیے سٹیج ڈرامے کیے۔ تو ان کا کہنا تھا کہ ’جی ہاں یہ اعزاز پانے والی میں واحد عرب اداکارہ ہوں۔‘
’میں نے تھیٹر کے تمام انٹرنیشنل سکولز کے لیے کام کیا۔ مجھے نامی گرامی غیر ملکی ہدایتکاروں کے ساتھ کام کرنے کا بھی موقع ملا۔ ان میں سوویت یونین کے ہدایتکار لسلی بلیٹن بھی شامل ہیں جو ’انکل فانیا‘ ڈرامے کے ہدایتکار تھے۔ اس کے علاوہ فرانس کے ہدایت کار جون بیئر لوروی، انگریز ہدایتکار برنار جوس اور جرمن ہدایتکاروں کے ساتھ بھی کام کا موقع ملا۔‘
سمیحہ ایوب سے پوچھا گیا کہ کیا انٹرنیشنل تھیٹرز کے تجربے کا محرک آپ کی تعلیم اور ثقافت تھی یا اس کا کوئی اور راز ہے؟
’میں نے فرانسیسی سکول سے تعلیم حاصل کی تھی اور اپنی تربیت از خود کرتی رہی۔ میں نے تھیٹر آرٹ انسٹی ٹیوٹ بھی تعلیم حاصل کی۔ میری عمر 14 برس تھی جب میرے ماموں نے میرے لیے عربی زبان کے ٹیچرز کا انتظام کیا، جس سے میں فصیح عربی زبان کی ماہر ہو گئی۔‘
’میں نے عربی زبان کے الفاظ کا صحیح تلفظ سیکھنے پر بڑا زور دیا۔ میری خواہش اور کوشش تھی کہ جو لفظ بھی میں اپنی زبان سے ادا کروں وہ شائقین تک اچھی طرح سے پہنچے۔ میں عربی زبان کی دیوانی ہوں۔‘
سمیحہ ایوب سے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ کیا سیاسی منظر نامہ فن پراثر انداز ہوتا ہے تو انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں جواب دیا کہ سیاسی منظر نامہ فن پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔
’سیاست نہ صرف یہ کہ فن پر منعکس ہوتی ہے بلکہ پوری زندگی پر اپنے اثرات ڈالتی ہے۔ ایسے میں فنکار کا کردار بے حد اہم ہوتا ہے انہیں تبدیلیوں کو قبول یا مسترد کرنے کے سلسلے میں پرعزم ہونا پڑتا ہے۔‘
انہوں نے اپنی مثال دیتے ہوئے کہا کہ 25 جنوری 2011 کے بعد فن کی دنیا بہت زیادہ متاثر ہوئی۔ ’نوجوانوں کے طور طریقے بدل گئے۔ میں نے نفع نقصان کے حساب سے اوپر اٹھ کر گھرمیں بیٹھنا پسند کیا۔ اس دوران کوئی کام نہیں کیا۔ آخری دو برسوں کے دوران ہمارے یہاں مصر میں معقولیت پسندی کا رجحان بحال ہونا شروع ہوا ہے‘