چند روز سے پاکستان کے حالات میں سیاسی افراتفری اور بے یقینی بہت بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ عمران خان صاحب کی حکومت نے جو بجٹ پیش کیا ہے اس سے عام آدمی میں بے چینی بہت بڑھ گئی ہے۔
حال ہی میں گیلپ پاکستان کا پول سامنے آیا ہے جس کے مطابق عمران خان صاحب کی حکومت کا گراف بہت نیچے چلا گیا ہے اور اس میں 13 فیصد کمی آئی ہے اور یہ 58 فیصد سے 45 فیصد پر آ گئی ہے۔ اس کی وجہ عمران خان صاحب کی اقتصادی پالیسیوں کے علاوہ ملک میں سیاسی افراتفری بھی ہے۔
عمران خان صاحب نے پارلیمنٹ سے بجٹ تو منظور کروا لیا ہے لیکن اپوزیشن کے کئی اہم رہنما گرفتار ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے جلسے جلوس شروع کر دیے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ اپوزیشن جماعتیں اکٹھی نہیں ہو سکیں گی لیکن اپوزیشن جماعتیں اے پی سی کے پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو گئی ہیں اور 25 جولائی کو ان جماعتوں کی طرف سے یوم سیاہ بھی منایا جا رہا ہے۔
لیکن لگ ایسا رہا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں پیچھے رہ گئی ہیں، اپوزیشن جماعتوں نے عوام کے جو مسائل تھے جو رائے عامہ ہے، اس کا صحیح ادراک نہیں کیا۔ یہ پیچھے رہ گئے ہیں عوام آگے نکل گئے ہیں کیونکہ تاجروں اور دیگر طبقوں کی جانب سے 13-12 جولائی کو ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہو رہا ہے بلکہ اب تو صحافی بھی آ گئے ہیں اور وہ 16 جولائی کو غیر اعلانیہ سینسر شپ کے خلاف یوم سیاہ منا رہے ہیں۔
پچیس جولائی کو مولانا فضل الرحمان پشاور میں جلسہ کر رہے ہیں، بلاول کراچی میں جلسہ کریں گے، اگر مریم نواز گرفتار نہ ہوئیں تو وہ لاہور میں جلسہ کریں گی اور محمود اچکزئی کوئٹہ میں جلسہ کریں گے۔ چاروں صوبوں میں چار مختلف جماعتیں جلسے کریں گی اور ظاہر ہے حکومت گرانے کی بات بھی کریں گی۔ لیکن مجھے لگتا ایسے ہے کہ 25 جولائی سے قبل ہی تاجروں کی طرف سے ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا اور ایک مومینٹم بن جائے گا۔
اور یہ پاکستان میں کافی عرصے بعد ایسا موحول بن رہا ہے جب اپوزیشن کا ایجنڈا کچھ اور ہے اور عوام کا ایجنڈا کچھ اور ہے۔ عوام کی ہڑتالیں پہلے شروع ہو گئی ہیں اور اپوزیشن کی ہڑتالیں بہت بعد میں ہوں گی۔
اس وقت اپوزیشن کا ایجنڈا کیا ہے؟ مریم نواز چند روز قبل ایک جج ارشد ملک کے خلاف کچھ ویڈیوز لے کر سامنے آئی ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ ایک جج نے ناانصافی پر مبنی فیصلے کے ذریعے میرے والد کو زنداں میں پہنچا دیا ہے۔ اب اس پر کھلبلی تو کافی مچی ہے لیکن یہ ایک عوامی ایشو نہیں ہے۔
دوسری طرف آپ دیکھیں کہ اپوزیشن نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف ایک تحریک عدم اعتماد دائر کر دی ہے اور حاصل بزنجو صاحب اپوزیشن جماعتوں کے امیدوار بن گئے ہیں۔ اب سینیٹ میں اپوزیشن پارٹیوں کی اکثریت ہے اور تحریک انصاف، بلوچستان عوامی پارٹی اور دیگر اتحادی جماعتیں اقلیت میں ہیں لیکن صادق سنجرانی صاحب نے استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا ہے اور انہیں یقین ہے کہ وہ چیئرمین سینیٹ کا الیکشن جیت جائیں گے اور اپنا عہدہ برقرار رکھیں گے۔
مزید پڑھیں
-
ن لیگی ارکان کی عمران خان سے ملاقات کی حقیقت کیا؟
Node ID: 424161