پاکستان کے محکمۂ موسمیات کے حکام کا کہنا ہے کہ مون سون کے موسم میں بارشیں معمول سے زیادہ ہوں گی جس سے بڑے سیلاب کا خدشہ نہیں تاہم بڑا خطرہ انڈیا کی جانب سے اچانک دریاؤں میں پانی چھوڑنے سے صورتحال خطرناک ہو سکتی ہے۔
پاکستان کے مختلف علاقوں میں مون سون کی بارشوں سے سیلابی صورتحال دیکھنے میں آئی ہے جس سے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں بارشوں کے نتیجے میں سیلاب آ سکتے ہیں۔
رواں مون سون میں بارشوں کی مقدار کے حوالے سے محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد حنیف نے اردو نیوز کو بتایا کہ اگرچہ اس سال ملک میں مون سون میں مجموعی طور پر بارشیں معمول کے مطابق ہوں گی، تاہم بالائی پنجاب، بالائی خیبرپختونخوا اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بارشیں معمول سے زیادہ ہوں گی اور وقفے وقفے سے سیلابی صورت حال بنے گی لیکن کسی بڑے دریا میں سیلاب کا خدشہ نہیں۔
دوسری جانب قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے سابق عہدے دار کے مطابق ملک میں بارشوں سے زیادہ تشویش انڈیا میں بارشوں کے بعد دریاؤں میں اضافی پانی چھوڑنے پر ہے۔
ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے سابق عہدے دار اور ہنگامی صورتحال میں امدادی کارروائیوں کے ماہر احمد کمال کہتے ہیں کہ مون سون میں بارشیں تو ہر سال ہوتی ہیں، پاکستان کے مشرقی دریاؤں میں پانی انڈیا سے آتا ہے جس سے پاکستان میں اکثر سیلاب آ جاتا ہے، اس مرتبہ پاکستانی حکام کی بھوپور کوشش کے باوجود انڈیا نے دریاؤں میں پانی چھوڑنے کے حوالے سے ابھی تک آگاہ نہیں کیا۔
اگر شدید بارشوں کے بعد انڈیا کی طرف سے پانی آتا ہے تو ہم اس حوالے سے مکمل طور پر لاعلم ہیں جو کہ ایک تشویش ناک بات ہے اور اس صورتحال سے بڑا سیلاب آ سکتا ہے۔
سیلاب کے اس خدشے اور تیاریوں پر ترجمان این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ دریاؤں کی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے تمام متعلقہ اداروں کے ساتھ ہمہ وقت رابطے میں ہے۔
محکمہ موسمیات کی جانب سے کسی وارننگ کے سوال پر ڈاکٹر حنیف نے کہا کہ اگرچہ بارشوں سے پہاڑی علاقوں کے دریاؤں خصوصاً ندی نالوں میں سیلاب آنے کا خدشہ ہے تاہم ابھی تک محکمہ موسمیات نے سیلاب کی کوئی وارننگ جاری نہیں کی۔ البتہ این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم ایز اور متعلقہ اداروں کو اطلاع کر دی گئی ہے۔
ڈاکٹر حنیف نے بتایا کہ پاکستان میں مون سون سسٹم اس وقت موجود ہے اور آئندہ ہفتے اس کی شدت میں مزید اضافہ ہو گا۔
مزید پڑھیں
-
پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک میں شاملNode ID: 154401