Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کشمیر: ’بچے چھپ کر سکول جاتے ہیں‘

گولہ باری کے بعد وادی لیپہ کی مکین ثمینہ بی بی نے اپنے چار بچوں کے ہمراہ نقل مکانی کی ہے
پاکستان اور انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کو تقسیم کرنے والی 740 کلومیٹر طویل لائن آف کنٹرول پر پاکستان کے زیرانتظام علاقوں میں پانچ لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل آبادی مقیم ہے۔ 
انڈیا کی جانب سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والی کشیدہ صورت حال نے کنٹرول لائن کے مکینوں کو شدید اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے۔ کنٹرول لائن کے قریب رہائش پذیر خاندان دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان گولہ باری اور فائرنگ کا نشانہ بنتے ہیں۔
حالیہ کشیدگی کے بعد ایک بار پھر لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقوں سے بعض خاندانوں نے نقل مکانی شروع کر دی ہے جبکہ بہت سے مکین گولہ باری اور فائرنگ میں اضافے کے خدشے کو مدنظر رکھتے ہوئے نقل مکانی کا سوچ رہے ہیں۔
ماضی میں گولہ باری سے متاثر ہونے والے دیہات کے رہائشیوں نے موجودہ صورت حال کے پیش نظر بنکرز کی تعمیر بھی شروع کر دی ہے۔

لائن آف کنٹرول پر پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں پانچ لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل آبادی مقیم ہے

پندرہ اگست کو ایل او سی کے لیپہ سیکٹر میں بھارتی فوج کی گولہ باری اور فائرنگ سے مقامی آبادی کی املاک کو شدید نقصان پہنچا۔ خوش قسمتی سے کوئی شہری حالیہ شیلنگ کا نشانہ نہیں بنا۔ ماضی میں گولہ باری اور فائرنگ سے لیپہ وادی میں درجنوں افراد شہید، زخمی اور معذور ہوئے۔ حالیہ فائرنگ سے مقامی افراد کی املاک کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
وادی لیپہ کی مکین ثمینہ بی بی اپنے چار بچوں کے ہمراہ پندرہ اگست کی گولہ باری کے بعد اپنی اور بچوں کی جان بچانے کے لیے نقل مکانی کرنے پر مبجور ہو گئیں جبکہ ان کے دو بچے اب بھی اپنے آبائی گھر میں ہی مقیم ہیں۔ ثمینہ کے شوہر فاروق جو کچھ عرصہ قبل بارودی سرنگ پھٹنے سے ایک ٹانگ سے معذور ہوئے، لیپہ اپنے بچوں کو لینے گئے ہیں لیکن فائرنگ اور گولہ باری کی وجہ سے ابھی تک وہ انہیں واپس نہیں لا سکے۔ ثمینہ بی بی کا گھر لائن آف کنٹرول کے قریب ہے اور ان کے پاس بنکر بنانے کیلئے مالی وسائل نہیں۔ ثمینہ کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کے بچے زندہ بھی ہیں یا نہیں۔
اپنی والدہ کے ہمراہ ہجرت کرنے والی تیسری جماعت کی طالبہ آٹھ سالہ مریم کہتی ہیں ’ہمیں بہت ڈر لگتا ہے جب گولہ باری شروع ہوتی ہے۔ ہم سب کچھ چھوڑ کر وہاں سے بھاگ کر یہاں آئے ہیں۔ ہمیں چھپ کر سکول جانا پڑتا ہے، میرے دو بہن بھائی بھی ابھی تک وہاں ہیں۔‘

رواں سال فروری میں بھی ایل او سی سے سینکڑوں افراد نے عارضی طور پر نقل مکانی کی تھی

 ایل او سی کے مکینوں کو موجودہ صورتحال میں شدید تشویش لاحق ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر رہنے والی آبادی کو اپنی جانیں بچانے کے لیے حفاظتی بنکرز بھی دستیاب نہیں۔ جو مکین مالی طور پر قدرے مستحکم ہیں انہوں نے اپنے خاندان کی حفاظت کے لیے زیر زمین بنکرز بنانا شروع کیے ہیں تاکہ فائرنگ اور گولہ باری جیسی ہنگامی صورتحال میں محفوظ رہ سکیں۔
حکومت نے کنٹرول لائن کے مکینوں کی حفاظت کے لیے بنکرز بنانے کے اعلانات کیے ہیں تاہم اس کے لیے عملی اقدام نہیں کیا گیا۔ لائن آف کنٹرول کے علاقے چلہانہ کے رہائشی تصدق شاہ اپنے بچوں کو گولہ باری کے دوران محفوظ رکھنے کیلئے بنکر تعمیر کر رہے ہیں۔
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں لائن آف کنٹرول کی ہزاروں نفوس پر مشتمل آبادی کشیدگی میں اضافہ ہونے سے نقل مکانی کر سکتی ہے۔ رواں سال فروری میں کشیدہ صورت حال کے دوران ایل او سی کے مختلف علاقوں سے سینکڑوں افراد نے عارضی طور پر ہجرت کی تھی۔ بعد ازاں کشیدگی میں کمی آنے کے بعد یہ افراد واپس اپنے گھروں کو لوٹ گئے تھے۔

شیئر: