Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’حکومت نہیں، عہد کی تبدیلی‘

انڈیا کے وزیراعظم نریندرمودی نے 2014 میں وزیراعظم بننے کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں کہا تھا وہ نہیں جانتے کہ پاکستان میں مذاکرات کے لیے کس سے بات کی جائے، فوج سے یا منتخب حکومت سے؟ کیونکہ یہ سمجھ نہیں آتا کہ پاکستان چلا کون رہا ہے؟ انڈین وزیراعظم نے پاکستان پر یہ ایک گہرا طنز کیا تھا۔ 
مگر اسی دوران پاکستان میں صورتحال بدلنا شروع ہو چکی تھی۔ گذشتہ کئی سالوں سے جاری بحرانوں جن میں دہشت گردی سر فہرست تھی جس کے نتیجے میں 70 ہزار پاکستانی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، ملکی معیشت کو سو ارب ڈالر کا نقصان پہنچا جس نے پاکستان کی بنیادیں ہلا دی تھیں، نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ پاکستان کو ایک ناکام ریاست قرار دیا جا رہا تھا۔
دنیا بھر میں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے اور دہشت گردوں کے ہاتھ لگ جانے کے حوالے سے باتیں ہورہی تھیں، اس صورتحال نے پاکستان کی فوجی قیادت کو ایک حتمی نتیجے پر پہنچا دیا تھا کہ اب پاکستان کی پالیسی کو تبدیل کر کے ایک ایسے رخ پر ڈالنا ہوگا جہاں فیصلے وقتی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک مستقل اور حقیقت پسندانہ سوچ پر مبنی ہوں گے۔

ماضی میں فوج اور سول حکومتوں کے درمیان اختیارات کی کشمکش رہی ہے

اختیارات کا مکمل کنٹرول ہر سول حکومت کا خواب ضرور رہا ہے مگر اس کے لیے جس ہمت، استقامت اور صلاحیت کی ضرورت ہے وہ ناپید ہی دکھائی دی، موجودہ حکومت بھی اس خرابی سے مبرا نہیں ہے یہاں بھی ہمیں کئی شعبوں میں اہلیت کا شدید فقدان دکھائی دیتا ہے۔
جب تک باصلاحیت افراد کو درست جگہ نہیں لگایا جائے گا مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے، ہمارے نظام میں ایک بنیادی خرابی ہے جس کی وجہ اہل افراد سامنے نہیں آ پاتے، بدقسمتی سے پارلیمنٹ پر نگاہ ڈالیں تو وہاں بھی ایسے ہی افراد کی کثرت ہے جو صرف دولت کے بل بوتے پر عوامی نمائندے بن بیٹھے ہیں جو کہ نئے پاکستان کا نعرہ لگانے والوں کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے ۔ مقامی حکومتوں کے بغیر جمہوریت کا تصور ادھورا ہے مگر ایک سال بعد بھی تحریک انصاف کی حکومت اپنے وعدے کے مطابق بلدیاتی ادارے فعال نہیں کرسکی ۔
ہماری سیاسی قیادت یہ خواب تو ضرور دیکھتی ہے کہ جس طرح ترکی میں فوج نے صدر طیب اردگان کی حکومت کو ہٹانے کی کوشش کی تو عوام فوجی ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہو گئے اسی طرح پاکستانی عوام بھی ان کا اقتدار بچانے کی خاطر باہر نکلیں، لیکن ہمارے حکمران خود کبھی طیب اردگان بننے کے لیے تیار نہ ہو سکے۔
ماضی میں فوج اور سول حکومتوں کے درمیان اختیارات کی کشمکش سے نہ تو فوج کو کوئی فائدہ ہوا اور نہ ہی کسی سول حکومت کو، اس کا نتیجہ  قوم نے کارگل آپریشن، میمو سکینڈل اور ڈان لیکس کی شکل میں نکلتے دیکھا جس سے ملک کو نقصان ہی ہوا ہے۔

سول حکومت کو یہ بھی سمجھنا ہو گہ اصل تبدیلی اس وقت آئے گی جب سول اداروں کی کارکردگی بہتر ہو گی

اسی لیے یہ طے کر لیا گیا کہ فوج اب اقتدار پر قبضہ نہیں کرے گی، حکومت چلانا سویلین کا کام ہے  اور یہ وہی کریں گے، فوج پس منظر میں رہ کر پالیسیوں پر نظر رکھے گی، سویلین حکومت کی ہر طرح سے مدد کرے گی، ہر شعبے میں آئین اور قانون کی حکمرانی  کو یقینی بنایا جائے گا، ہر قسم کی پراکسی وار سے علیحدگی اختیار کی جائے گی، کسی مسلح گروہ کی سرپرستی نہیں کی جائے گی، افغانستان میں سٹریٹیجک ڈیپتھ کے دیرینہ نظریے پر نظرثانی کی گئی۔
اچھے اور برے طالبان کا فرق مٹا دیا گیا، یہ فیصلہ بھی ہوا کہ اپنے اور پرائے کسی کی جنگ میں حصہ نہیں لیا جائے گا تمام ملکوں سے برابری کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات قائم کیے جائیں گے۔  
جنرل راحیل شریف کے دورمیں دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ شروع ہوئی جس میں کراچی سے لے کر قبائلی علاقوں تک ہر قسم کے انتہا پسندوں کا خاتمہ کیا گیا، اس دوران بھی  ملک کے اندر سے کئی حلقے فوج کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت دیتے رہے۔ جنرل راحیل شریف نے ریٹائرمنٹ کے بعد آئی ایم سی ٹی سی میں ایک ملاقات کے دوران مجھے ایسی کئی اہم سیاسی شخصیات کے نام بتائے جو ان سے منتخب حکومت کو ہٹا کر مارشل لا لگانے کا مشورہ دے رہے تھے ، اگر کبھی وقت آیا تو میں ان شخصیات کے نام بھی ظاہر کر دوں گی۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے جب فوج کی کمان سنبھالی تو اس کے بعد ہمیں یہ پالیسی ایک مربوط شکل میں دکھائی دی، جس میں ملک کے اندر قانون کی مکمل حکمرانی، کرپشن کا خاتمہ اور اس میں ملوث افراد کو سزائیں دلانے، تباہ حال سول اداروں کی بحالی اور فرسودہ قوانین کی تبدیلی سرفہرست دکھائی دیتی ہے، اسے باجوہ ڈاکٹرائن کا نام دیا گیا اور یہ پالیسی اب تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔
اس میں تین بڑے اداروں کا کردار نمایاں ہے، فوج ، سول حکومت اور عدلیہ۔ تحریک انصاف کی حکومت اس پالیسی کے نفاذ میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے کیونکہ تبدیلی کا نعرہ باجوہ ڈاکٹرائن سے مکمل ہم آہنگ ہے ۔ اسی لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں 2018 کے انتخابات کے بعد صرف حکومت تبدیل نہیں ہوئی بلکہ ایک عہد بدل چکا ہے۔

رہی بات انڈین وزیراعظم نریندرمودی کی تو وہ اس وقت یقینا ہوا کے گھوڑے پر سوار ہیں

میاں نواز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز، رانا ثنا اللہ، شاہد خاقان عباسی، آصف زرداری، فریال تالپور اور حافظ سعید جیسی اہم سیاسی شخصیات کا گرفتار ہونا کوئی معمولی بات نہیں اور پہلے اس بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے بعد کرپشن کے حوالے سے گرفتاریوں اور سزاؤں میں تیزی  آئے گی۔ پاکستان میں جاری فرسودہ قوانین کو بھی تبدیل کیا جا رہا ہے، اس حوالے سے اب قانون سازی آگے بڑھے گی۔ 
خارجہ پالیسی میں ہمیں ایک بڑی خوش آئند تبدیلی دکھائی دی ہے، وہی ماضی کا دفتر خارجہ ہے وہی عملہ ہے، لیکن ایک فعال وزیرخارجہ مقرر کرنے سے بہت بڑی تبدیلی دکھائی دے رہی ہے وزیراعظم خود خارجہ پالیسی کی نگرانی کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بڑا جوش و جذبہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں دکھائی دے رہا ہے، ملک کے مفاد کو ترجیح دی جا رہی ہے دنیا میں قوم کے وقار کو بحال کیا جا رہا ہے۔
تبدیلی تو آ گئی ہے لیکن سوال یہ ہے کیا ہم ماضی کی سول ملٹری کشمکش سے مکمل طور پر باہر آ چکے ہیں؟ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اب ہم 90 کی دہائی سے نکل چکے ہیں پرانی طرز سیاست کا خاتمہ ہو چکا ہے اور اب نئے مسائل کا سامنا ہے خاص طور پر معاشی میدان میں، جہاں پاکستان قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا تھا اور اب بھی حکومت کو معیشت میں بہتری کے لیے سخت چیلنجز کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ 
سول حکومت کو یہ بھی سمجھنا ہو گہ اصل تبدیلی اس وقت آئے گی جب سول اداروں کی کارکردگی بہتر ہو گی، یہاں تو یہ عالم ہے کہ دو ماہ قبل جب پتریاٹہ کے تفریحی مقام پر چیئرلفٹ خراب ہوئی تو سیاحوں کو ریسکیو کرنےکے لیے آرمی کی مدد لینی پڑی اور آرمی انجیئنرنگ کور نے ہی چیئرلفٹ کی مرمت کی۔
عوام مہنگائی بیروزگاری اور دیگر مسائل میں گرفتار ہیں  اس لیے جلد از جلد تبدیلی کے ثمرات سے فیض یاب ہونا چاہتے ہیں، پاکستان میں اکثر لوگ انقلاب کو ہی تبدیلی سمجھتے ہیں لیکن عرب بہار کا جو انجام ہوا وہ تیونس، مصر، لیبیا، الجزائر اور یمن کی تباہی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
ہمیں سمجھنا ہو گا کہ تبدیلی بہت سوچے سمجھے اور بتدریج اصلاحی اقدامات کی شکل میں آئے گی جب ہی اس کے نتائج دیرپا ثابت ہوں گے۔ 
رہی بات انڈین وزیراعظم نریندرمودی کی تو وہ اس وقت یقینا ہوا کے گھوڑے پر سوار ہیں لیکن پاکستان کی ریاست جواب دینا جانتی ہے، وہ ایک بار مذاکرات کی میز پر توآئیں انہیں ان کے سارے سوالات کو جواب مل جائیں گے۔

شیئر: