28 جولائی2007 کی شام تھی جب بے نظیربھٹو اور صدر جنرل پرویز مشرف کے درمیان ابوظہبی میں خفیہ ملاقات ہوئی جس میں پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف تمام مقدمات ختم کر کے اسے اقتدار میں شرکت کا موقع دینے پر بات ہوئی۔
جنرل پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو میں این آر او کی شرائط طے کی گئیں، اس ملاقات کو خفیہ رکھنے کی پوری کوشش کی گئی تھی مگر چند گھنٹوں بعد ہی یہ خبر لندن تک پہنچ گئی جہاں میاں نواز شریف نے اسے اپنے ساتھ ایک بڑا دھوکہ تصور کیا۔
نواز شریف نے فورا ایک بیان جاری کیا جس میں کہا ’میں جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ڈیل کو گالی سمجھتا ہوں، عدلیہ پر شب خون مارنے اورعوام کی توہین کرنے والے کے ساتھ کبھی بھی ہاتھ نہیں ملاؤں گا، جو میثاق جمہوریت سے انحراف کرے گا وہ ڈوب جائے گا۔‘
اس سے ایک سال قبل ہی 14 مئی 2006 کو پہلی بار پاکستان کی دو دیرینہ حریف جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان میثاق جمہوریت کے نام پر مفاہمت ہوئی تھی لیکن میاں نوازشریف کو اب احساس ہوا کہ درحقیقت پیپلزپارٹی اس مفاہمت کو جنرل پرویزمشرف پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کر رہی تھی، جو پہلے ہی لال مسجد آپریشن اور عدلیہ تحریک کی وجہ سے شدید دباؤ کا شکار تھے۔
آٹھ روز قبل 20 جولائی 2007 کو سپریم جوڈیشل کونسل نے افتخار چوہدری کو عہدے پر بحال کر دیا تھا جس کی وجہ سے جنرل پرویز مشرف پیپلز پارٹی سے این آر او کے لیے مجبور ہوئے تھے۔
مجھے یاد ہے اس زمانے میں لندن میں جب میں میاں نواز شریف کی رہائش گاہ ٹین ڈیوک سٹریٹ جایا کرتی تو وہاں کئی صحافی موجود ہوتے تھے، پاکستان میں صدر جنرل پرویز مشرف کی حکومت کا ذکر آتا تو میاں نواز شریف کا لہجہ انتہائی تلخ ہوجاتا اور وہ اسٹیبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیتے۔
اس وقت میاں شہباز شریف اپنے بڑے بھائی جان کو خاموش کراتے اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لہجہ نرم کرنے کا مشورہ دیتے، یہی بیڈ کاپ اور گاڈ کاپ کی پالیسی آج بھی دونوں بھائیوں کی سیاست کا حصہ نظر آتی ہے۔
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان میثاق جمہوریت کے نام پر ہونے والی مفاہمت تو جلد ہی انجام کو پہنچ گئی، دونوں جماعتوں کے درمیان دوسری بار مفاہمت 2008 میں مری میں ہوئی جہاں آصف زرداری اور میاں نوازشریف کے درمیان مری معاہدہ ہوا اور تاریخ نے یہ منظر بھی دیکھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے مل کر اتحادی حکومت تشکیل دی، لیکن آگ اور پانی کا یہ ملاپ زیادہ دیر چل نہ سکا۔
افتخار چوہدری کی بحالی کے معاملے پر دونوں جماعتوں میں اختلافات شروع ہوئے میاں نواز شریف نے پیپلز پارٹی کی قیادت پر وعدہ خلافی کا الزام لگایا جس پر صدر آصف زرداری نے ’وعدے قران و حدیث نہیں ہوتے‘ کا تاریخی جملہ کہا۔
اس کے بعد پھر قوم نے میاں نواز شریف کو عدلیہ بحالی کے لیے پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کرتے دیکھا، میاں شہباز شریف کے منہ سے صدر زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کے تاریخی جملے بھی سنے اور میاں نواز شریف کو میمو گیٹ کیس میں آصف زرداری کے خلاف کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ جاتے بھی دیکھا۔
آج تاریخ نے ایک بار پھر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو قریب آنے پر مجبور کر دیا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی وہ قیادت جس نے ماضی میں مفاہمت کر کے ایک دوسرے پر دھوکے بازی کے الزام لگائے وہ اب جیل میں ہے اور ان کی اگلی نسل پھر مفاہمت کا تیسرا تجربہ کر رہی ہے۔
آصف زرداری اور نوازشریف کے بعد بلاول بھٹو اورمریم نواز پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو ایک ساتھ لے کر چلنے کی کوششیں کر رہے ہیں، 25 جولائی کو دونوں جماعتوں نے ملک بھر میں حکومت کے خلاف مشترکہ جلسے کیے لیکن پارٹی کے نظریاتی کارکنوں کا ذہن اس بات کو قبول نہیں کر پا رہا، شاید اسی وجہ سے ان جلسوں میں وہ جوش و خروش نہیں دکھائی دیا جس کا مظاہرہ ماضی میں ایک دوسرے کے خلاف جلسوں میں دکھائی دیتا رہا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ متضاد نظریات رکھنے والی جماعتوں کا اتحاد کبھی کامیاب نہیں ہو سکا، کچھ اس طرح کا اتحاد ہم نے دھرنے کے موقع پر تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے درمیان دیکھا تھا، طاہر القادری کے متعلق عمران خان کے ناپسندیدہ جذبات سے سب آگاہ تھے مگر طاہر القادری کو عمران خان کا سیاسی کزن تک کہا گیا اور پھر ہم نے دیکھا کہ عمران خان کے کزن انہیں ڈی چوک پر تنہا چھوڑ کر کینیڈا نکل گئے۔
مزید پڑھیں
-
پاکستانی اپوزیشن کا مخمصہ، فریحہ ادریس کا کالمNode ID: 424276
-
فریحہ ادریس کا کالم: عدلیہ، دباؤ اور قیمے والے نانNode ID: 425831