مارچ کا مہینہ تھا، پاکستانی اور انڈین بارڈر فورسز کے درمیان جھڑپیں جاری تھیں۔ میرے مظفرآباد پہنچنے سے کچھ ہی دن پہلے 26 فروری کو انڈین جہازوں نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تھی اور اس کے اگلے ہی دن پاکستانی فوج نے کشمیر کے اوپر دو انڈین طیارے مار گرانے کا اعلان کیا تھا۔
اس موقع پر میں نے لائن آف کنٹرول کے اطراف بہت سے علاقوں کا دورہ کیا اور لوگوں کے جذبات جاننے کی کوشش کی۔ وہاں لوگ انڈین گولہ باری سے تو پریشان تھے ہی لیکن انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں رہنے والے لوگوں کی فکر بھی انہیں کھائی جارہی تھی۔
بہت سے لوگوں نے مجھ سے کہا کہ جیسے انڈین گولے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں تباہی پھیلاتے ہیں ویسے ہی پاکستانی گولے انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں تباہی پھیلاتے ہوں گے؟
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں رہنے والے لائن آف کنٹرول کو بارڈر تسلیم نہیں کرتے اور انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے لوگوں کے لیے بھی محبت کے جذبات رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انڈین حکومت کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے فیصلے کی وجہ سے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں بھی غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں
-
الفاظ کے الٹ پھیر کا دلچسپ مطالعہNode ID: 430116
-
بجلی کے کھمبوں سے لپٹی لاشیںNode ID: 430176
-
پہلے محبوب بنا جینا مشکل تھا اور اب۔۔۔Node ID: 430796
-
’’تم کیسے چوہدرانی بن کر بیٹھو گی؟‘‘Node ID: 430961
ایک ہفتے قبل میری ایک کشمیری نوجوان جو کہ مظفرآباد میں رہتا ہے اس سے کراچی میں ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ ان کے انڈین حکومت کے اقدامات کے حوالے سے کیا تاثرات ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ اگر پاکستانی حکومت کشمیری نوجوانوں کا ساتھ دے تو کشمیری خود ہی لڑنے کو تیار ہیں اور انڈیا کے چنگل سے اس خوبصورت وادی کو آزاد کرا لیں گے۔
مظفرآباد ہی میں میری ایک انڈین مخالف گروپ کے سابق کمانڈر سے ملاقات بھی ہوئی تھی جو کہ انڈیا کے زیرانتظام کشمیر سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ سالوں پہلے مسلح جدوجہد کو خیرباد کہہ چکے ہیں لیکن اگر انڈیا ایسے ہی کشمیریوں پر ظلم ڈھاتا رہا تو وہ اور ان جیسے درجنوں سابق مسلح جنگجو دوبارہ ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوں گے۔ حالانکہ انڈین وزیراعظم نریندر مودی کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کا مقصد اصل میں وادی کشمیر سے دہشت گردی ختم کرنا تھا۔
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر سے جو خبریں موصول ہورہی ہیں انہیں دیکھ کے لگتا نہیں کہ معاملات انڈین حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے متعدد مقامات پر مظاہرین مودی حکومت کے خلاف نعرے بازی کرتے نظر آتے ہیں۔
کوئی انڈین وزیراعظم کو بتائے کے ان کے حالیہ اقدامات سے دہشت گردی ختم نہیں ہوگی بلکہ ایسا کرنا کشمیریوں کو مزید مشتعل کرے گا جس کے نتیجے میں امن نہیں آئے گا بلکہ قتل و غارتگری کی ایک نئی لہر جنم لے گی۔
پاکستان کی جانب سے متعدد بار کہا جاچکا ہے کہ پاکستانی حکومت سفارتی سطح پر کشمیریوں کی حمایت جاری رکھے گی اور اس خطے میں ایک نئی جنگ چھیڑنا نہیں چاہتی۔ایک ہفتہ قبل وزیراعظم عمران خان نے صحافیوں سے ملاقات کی۔
دوران ملاقات ایک صحانی نے پوچھا کہ کیا پاکستان ماضی کی طرح کشمیر میں مسلح تنظیموں کا سہارا لے گا؟ وزیراعظم عمران خان کا جواب انکار میں تھا اور ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی حکمت عملی سے نقصان ہوتا ہے فائدہ نہیں۔
اب یہ انڈین حکومت کو سوچنا ہے کہ وہ خطے میں قتل و غارت گری چاہتی ہے یا امن، کیونکہ داعش اور القاعدہ جیسی شدت پسند تنظیمیں کشمیر پر برسوں سے نگاہیں گاڑے بیٹھی ہیں اور اگر یہ تنظیمیں کشمیریوں کے غصے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کشمیر میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں تو نقصان صرف انڈیا یا پاکستان کو نہیں ہوگا بلکہ اس کے اثرات اس خطے میں باقی ممالک پر بھی پڑیں گے۔