پاکستان کے صوبہ پنجاب میں اقتدار کی غلام گردشوں میں ہلچل اپنے عروج پر ہے اور طاقت کے مراکز ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔ اس رسہ کشی کے پہلے دور میں وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل اور مشیر عون چوہدری کو اپنے عہدوں سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں۔
یہ رسہ کشی بظاہر اس وقت تک عوام کی نظروں سے اوجھل تھی جب تک سابق ترجمان ڈاکٹر شہباز گل نے ایک دھواں دھار پریس کانفرنس میں ان تمام افراد کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا تھا جو ان کے بقول وزیر اعلیٰ پنجاب کو ہٹانا چاہتے ہیں۔
نام لیے بغیر انہوں نے کہا کہ ’جس کسی کو وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا چہرہ پسند نہیں وہ پارٹی چھوڑ دے۔‘ اس بیان کے رپورٹ ہوتے ہی وہ تمام خدشات درست ثابت ہوئے جن کے مطابق صوبے کے وزیر اعلیٰ کو ہٹانے کے لیے خود تحریک انصاف کے اندر سے کوششیں جاری ہیں۔
صورت حال اس وقت مزید پیچیدہ ہو گئی جب وزیر اعلیٰ کا دفاع کرنے والے شہباز گل خود ہی چلتے بنے اور وزیر اعلیٰ ہاؤس نے ’خوشی‘ سے ان کا استعفیٰ قبول کر لیا۔
وزیر اعلیٰ بزدار کو کون ہٹانا چاہتا ہے؟
اگر آپ پاکستانی میڈیا کے مستقل ناظر ہیں تو آپ نے یقیناً نوٹ کیا ہو گا کہ میڈیا کی وہ تمام تنومند آوازیں جو تحریک انصاف کا دفاع کرتی ہیں وہ اچانک وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار پر تنقید کرتی نظر آرہی ہیں۔
تجزیہ کار ارشاد بھٹی کے مطابق "بزدار صاحب کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا کر صوبے کے 10 کروڑ عوام کے ساتھ ایک سال مذاق کیا گیا۔ اگر ان کی تربیت کرنا ہی مقصود تھی تو کسی اور جگہ پر انہیں ’ٹرین‘ کر لیا جاتا تاکہ وقت اور پیسے کا ضیاع تو نہ ہوتا۔
’بزدار صاحب کی ایک سالہ کارکردگی صفر ہے۔ اب بھی لوگ ان کا دفاع کر رہے ہیں تو حیرت ہے۔ تحریک انصاف خود اپنے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے۔‘
رائے عامہ ہموار کرنے والے عناصر تو عثمان بزدار سے ہاتھ اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کے اندر بڑا گروپ جو وزیر اعلٰی کی حمایت میں آگے نہیں بڑھا وہ گورنر سرور چوہدری اور شاہ محمود قریشی گروپ ہے جو اس ’تبدیلی‘ کے لئے متحرک نظر آتا ہے۔
تحریک انصاف کی قریباً تمام صوبائی قیادت اس موضوع پر بات کرنے سے کترا رہی ہے۔ تحریک انصاف پنجاب کے صدر اعجاز چوہدری سے جب اردو نیوز نے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا ’آپ جو بھی سوال کر رہے ہیں مجھے کسی چیز کا علم نہیں، نہ تو مجھے پتا ہے ترجمان کو کیوں ہٹایا گیا ہے اور نہ ہی مجھے کوئی نئی تبدیلی نظر آرہی ہے، میں اس بارے میں کوئی بھی بیان دینے سے قاصر ہوں۔‘
ادھر پنجاب میں اپوزیشن بھی مکمل خاموش ہے۔ اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز جیل میں ہیں جبکہ دیگر پارٹی قیادت بھی معاملات پر خاموش ہے۔ مسلم لیگ ن کی رہنما عظمیٰ بخاری کے مطابق ’سلیکٹڈ حکومتوں کا یہی حال ہوتا ہے، ابھی تو شروعات ہے جس طرح سے یہ حکومت بنائی گئی یہ سب آپس میں ایک ایک دوسرے کا گریبان پکڑتے رہیں گے۔‘
’بزدار کو ہٹائیں یا کسی اور کو لگائیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، البتہ اس سے یہ ضرور پتا چل رہا ہے کہ انہیں حکومت چلانا نہ پہلے آیا نہ اب آئے گا۔‘
سینیئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق شہباز گل کا استعفیٰ ایک درمیانہ معاملہ ہے، یہ بھی درست ہے کہ کچھ طاقتیں بزدار کو ہٹانے کے لیے سرگرم ہیں مگر اس میں کچھ وقت لگے گا۔
یہ بھی تو دیکھنا ہے کہ پنجاب میں متبادل قیادت کیا ہے۔ بزدار صاحب اتحادی حکومت کے وزیر اعلیٰ ہیں، اس حوالے سے اتحادیوں کا وزن بھی اہمیت کا حامل ہے۔
ق لیگ کی بزدار کی غیر مشروط حمایت
اقتدار کی اس ڈرائنگ روم سیاست میں ابھی تو وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی حمایت میں کوئی کھل کر سامنے آیا ہے تو وہ ہے مسلم لیگ ق۔ سعودی عرب عمرے پر جانے سے پہلے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی نے ملاقات کی اور انہیں اپنی حمایت کا مکمل یقین دلایا۔ ملاقات کے بعد جاری ہونے والی پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ق لیگ نے عثمان بزدار کی پہلے بھی حمایت کی اور مستقبل میں بھی یہ حمایت جاری رکھی جائے گی۔
صحافیوں کے ساتھ ایک غیر رسمی ملاقات میں سپیکر پنجاب اسمبلی کا کہنا تھا ’بزدار صاحب اچھا کام کر رہے ہیں، ان کو وزیر اعلیٰ بنانے میں ق لیگ کا بڑا کردار ہے، اگر ان کو ہٹانے کی سازش کی گئی جو کہ نظر بھی آ رہی ہے کہ کی جا رہی ہے تو ق لیگ بھرپور طریقے سے ان کا ساتھ دے گی چاہے اتحاد سے الگ کیوں نہ ہونا پڑے"۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پچھلی حکومت صوبے کو کنگلا کر کے گئی ہے، چیزوں کو ٹھیک کرنے میں وقت تو لگے گا، ایک سال میں سب ٹھیک نہیں ہوتا اور نہ اتنی جلدی چیف ایگزیکٹو بدلے جاتے ہیں۔